پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے اعلان کے بعد پارٹی کی ’جیل بھرو تحریک‘ جاری ہے۔
22 فروری کو لاہور میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم سواتی سمیت کئی رہنماؤں اور کارکنوں نے خود کو پولیس کے حوالے کیا جبکہ کل پشاور میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے گرفتاری پیش کرنے کا اعلان کیا لیکن گرفتاری نہیں دی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کے مطابق اب تک 81 کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جنہیں پنجاب کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ان گرفتاریوں اور اعلانات کے بعد یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی گرفتاری سے سیاسی طور پر پارٹی کو کیا فرق پڑے گا؟
جب یہ سوال سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور تجزیہ کار حسن عسکری سے کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ملکی تاریخ میں جتنی بھی ایسی تحریکیں چلتی ہیں ان کے نتائج فوری سامنے نہیں آتے، کیونکہ تحریکوں کے دوران جیلوں میں جانے والوں کا کردار ہی سیاسی ہوتا ہے۔‘
بقول حسن عسکری: ’پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری سے سیاسی طور پر مشاورت اور حکمت عملی سے متعلق تو فرق پڑے گا، لیکن دیگر رہنما ابھی باہر ہیں جو اس تحریک کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘
ان کے خیال میں پارٹی قیادت کو خود گرفتاری نہیں دینی چاہیے بلکہ باہر رہ کر کارکنوں کو منظم اور موٹیویٹ کرنا چاہیے تاکہ مطلوبہ نتائج برآمد ہو سکیں۔
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی بھی سمجھتے ہیں کہ کارکنوں کو متحد رکھنے کے لیے قیادت کا باہر ہونا ضروری ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’پی ٹی آئی نے 200 کارکنوں اور چند رہنماؤں کی گرفتاری پیش کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر تفصیل کے مطابق 81 کارکن اور رہنماؤں نے گرفتاری دی ہے۔
’دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اس تحریک میں مزید کتنے رہنماؤں کی گرفتاری ہوتی ہے اور جس طرح پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ان کے خلاف 16 ایم پی او اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس میں انہیں ایک ماہ تک جیلوں میں نظر بند رکھا جا سکتا ہے۔‘
لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے ایم پی او تھری کے تحت چیئرنگ کراس پر ریلی میں آنے والے پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کی 30 سے 90 دن کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر لاہور آفس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر مال روڑ چیئرنگ کراس پر ریلی نکالنے، احتجاج کرنے اور روڈ بلاک کرنے پر دفعہ 144 نافذ ہے، جس کی خلاف ورزی پر تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری پر تین ایم پی او کے تحت کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان احکامات کے بعد شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور عمر سرفراز چیمہ سمیت دیگر کارکن 30 سے 90 روز کے لیے نظر بند رہیں گے۔
سلمان غنی کے مطابق: ’ایسے حالات میں تحریک انصاف کی قیادت کے لیے مشاورتی عمل اور کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لیے ان کی باہر زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اگر پی ٹی آئی اس تحریک کے ذریعے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی تو پھر ان کی کیا حکمت عملی ہوگی؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بات بھی اہم ہے کہ انتخابات کروانے کے لیے سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں فیصلے نہیں کر پا رہیں۔ آئینی طور پر انتخابات کی مدت 90 دن ہے مگر خیبرپختونخوا اور پنجاب کی اسمبلی تحلیل ہونے کے باوجود حکومت آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ اس صورت حال میں سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا پڑا ہے۔ جو کام پارلیمنٹ کا ہے وہ بھی اداروں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہو رہی ہے۔‘
پی ٹی آئی رہنماؤں کی مختلف جیلوں میں منتقلی
تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنوں اور رہنماؤں کو پنجاب کی دور دراز جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی آواز دبائی جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعرات کو میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں اور کارکنوں کو صوبے کی دور دراز جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ 24 رہنماؤں اور کارکنوں کو ڈسٹرکٹ جیل لیہ منتقل کیا گیا ہے، 24 کو ڈسٹرکٹ جیل بھکر اور 25 کو راجن پور جیل منتقل کیا گیا۔‘
انہوں نے مزید تفصیل بتائی کہ ’شاہ محمود قریشی کو اٹک جیل، اعظم سواتی کو رحیم یار خان جیل منتقل کیا گیا ہے، مراد راس کو ڈی جی خان، سینیٹر ولید اقبال کو لیہ، عمر سرفراز چیمہ کو بھکر جیل، محمد مدنی کو بہاولپور جبکہ اسد عمر کوراجن پور جیل منتقل کردیا گیا ہے۔‘
اس ساری صورت حال میں تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو جیلوں میں بند رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ سارے فیصلے عمران خان خود کرتے ہیں۔ جیسے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ ان کا ذاتی عمل تھا اور اس میں تمام رہنماؤں کی مرضی شامل نہیں تھی۔ اسی طرح تحریک عدم اعتماد کے دوران انہوں نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا وہ بھی ان کا ہی فیصلہ تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی رہنماؤں کی غیر موجودگی میں بھی کارکن عمران خان کی ہی سنیں گے اور حکمت عملی بھی وہی بنائیں گے، جس پر عمل بھی ہوتا رہے گا، لہذا عمران خان حکومت مخالف جو بھی کال دیں گے، کارکن اس پر لبیک کہیں گے اور تحریک جاری رہے گی۔‘