ایسا نہیں ہے کہ لوگ طاقت کے اظہار کے لیے تشدد کو ضروری سمجھتے ہیں۔ کوئی تشدد پر اتر نہ آئے تو ہم کسی کی حیثیت کو تسلیم بھی نہیں کرتے۔ ہماری زندگی میں ایک بڑی مشکل ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ ہم اپنی قوم، قبیلے، مذہب اور مسلک کی طاقت کا اظہار گاہے گاہے ضروری سمجھتے ہیں۔ پھر اس بات پر تو جیسے قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہو کہ طاقت کے اظہار کے لیے انسانیت کو تکلیف میں مبتلا کرنا ضروری ہے۔ ہمیں لگتا ہے جب تک ہم مع اہل وعیال کسی کی آنکھ میں نہیں اتریں گے کوئی ہمارے وجود کا اعتراف ہی نہیں کرے گا۔
وسیع عریض میدانوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم سیاسی جلسے آبادی کے بیچوں بیچ کرتے ہیں۔ کان پھاڑبھونپو ہم آبادیوں میں نصب کردیتے ہیں تاکہ بے لگام خطیب کی آواز سماعتوں کو چیر پھاڑکے مقتدرہ تک پہنچے۔ احتجاج کے لیے چار لمڈے ہی کیوں نہ نکلے ہوں، بیچ شاہراہ پر ٹائر جلاکر ڈھائی تین ہزار گاڑیوں کے پہیے جام کر دیں گے۔ ہماری نظر میں یہ بروقت ابلاغ کا ایک معتبر ذریعہ ہوتا ہے۔ لوگ تکلیف سے دوچار ہوں گے تو پوچھیں گے کیا ہوا؟ یہی لوگ تاخیر کا شکار ہوں گے تو گھر ، دفتر، میٹنگ، محفل ، تعزیت اورعیادت میں پہلا سوال یہی پوچھا جائے گا کہ کہاں رہ گئے تھے۔ جہاں کہیں بھی جو کوئی بھی اس طرح کا کوئی سوال کرے گا تو جواب میں اسے ہمارا تعارف، نظریہ اور دستور منشورسب پہنچ جائے گا۔ اس دستور اور منشور میں خدمتِ انسانی کے سارے حوالے بھی پہنچ جائیں گے۔
سیاسی جلسہ واحتجاج یا ریلیاں اور مظاہرے تو رکھیے ایک طرف کہ اس میں تو اول و آخر روزی روٹی کے رونے دھونے ہوتے ہیں۔ قیامت کا درد تو تب ہوتا ہے جب سڑکیں مذہب کی نسبت سے بلاک کردی جاتی ہیں۔ عید میلادالنبی ہو یا عاشورہ وچہلم ہو، گلی گلی محلے محلے قناتیں کھنچی ہوئی نظرآتی ہیں۔ بارہ ربیع الاول کے دن تو شہر کی ہر نمائندہ سڑک راہگیروں پر حرام ہوتی ہے۔ ایمبولینس کے ڈرائیورتک بھی راستے بدل بدل کر گزرگاہیں تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ شہر کی مرکزی شاہراہوں سے ماتمی جلوس نہ صرف یہ کہ گزرتے ہیں بلکہ خونی ماتم کے مظاہرے کھلے آسمان کے نیچے کررہے ہوتے ہیں۔ گھروں میں آرام کرنے والے بزرگوں کو اگر یہ مقدس چیخم پکاری گراں گزررہی ہے تویہ ان کے عقیدے کی کمزوری ہے۔ امتحان کی تیاری کرنے والے کسی طالب علم کی پڑھائی میں ان سرگرمیوں سے کوئی خلل پڑرہا ہے تو اس کی تربیت میں یقینا کمی رہ گئی ہے۔ رستہ نہ ملنے کی وجہ سے کسی گاڑی میں مریض دم توڑگیا ہے تو اطمینان رکھنا چاہیے کہ خدا آج کی اسی بدمزگیوں کے طفیل اس کی بخشش کردے گا۔
مذہبی رسوم و روایات کی اذیت ناک ادائیگیوں پر کلام تقریبا ناممکن ہے۔ سماج تو رکھیے ایک طرف ریاست بھی اس معاملے میں بے بسی سے ہاتھ باندھے ایک طرف کھڑی رہتی ہے۔ آپ نے تکلیف کی شکایت کی تو آپ کی گردن پر توہین کا پھندا کسا جاسکتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ لاوڈ اسپیکر جیسی ٹیکنالوجی جب پہلی بار متعارف ہوئی تو علما نے اسے مذہب کے خلاف سازش قرار دیا تھا۔ آج اگر حکومت لاؤڈ اسپیکر کے ناجائز استعمال پر کوئی ایکٹ لاگو کرنا چاہے تو کہا جاتا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگانا مذہب کے خلاف سازش ہے۔ میلاد النبی کی تقریبات کو مساجد تک محدود کرنے کی بات کیجیے تو آپ گستاخ ہیں۔ عزادریوں کو امام باڑوں تک محدود کرنے کی تجویز دیجیے تو آپ اہل بیت کے دشمن ہیں۔ تو کیا کریں؟ کچھ نہیں، بس انسانیت کو تکلیف میں مبتلا کرنے کا ہمیں حق دیجیے اور اس تکلیف سے گزر کر اپنے مسلمان ہونے کا آپ ثبوت دیجیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی میں ایک دن رہ گیا ہے۔ ملک بھر میں مویشی منڈیاں لگ چکی ہیں اور گلی محلوں میں جانور پہنچ رہے ہیں۔ اگر آپ کی گلی کا سماں بھی یہی ہے تو یہ کالم یہیں چھوڑ دیجیے، کھڑکی سے باہر جھانک کر ایک نگاہِ غلط ڈال لیجیے۔ آپ پوش علاقے میں ہی کیوں آباد نہ ہوں، گندگی کا ڈھیر آپ کو ضرور ملے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو پاس صفائی کا وقت نہیں ہے۔ ایسا ہے کہ ہم اسے قربانی کی اس پوری روایت کا باقاعدہ حصہ سمجھتے ہیں۔اگر اس اس ماحولیاتی آلودگی پر آپ زبان ہلائیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ آپ یہود ونصاری کے ایجنٹ ہیں۔ کیونکہ صفائی کا تعلق تو انہی کافروں سے ہے ہمیں اس تکلف سے کیا شغف۔ ہمارے لیے گندگی کے بغیر اس فریضے کی ادائیگی کا تصور تقریبا محال ہوگیا ہے۔ قربانی کے موقع پر صفائی کرنا ایسا ہی ہوگیا ہے جیسے کراچی میں دورانِ ڈرائیونگ سیٹ بیلٹ باندھنا۔ اول تو خوداپنی طبعیت سیٹ بیلٹ باندھنے پر آمادہ نہیں ہوتی، ہوجائے تو دیکھنے والے کے دیدے مارے حیرت کے پھیل جاتے ہیں۔
عشق کا اصل امتحان عین قربانی کے دن ہوتا ہے۔ برابر میں گراؤنڈ کے ہوتے ہوئے بھی جس طرح ہم گلیوں میں ہی جلسے میلاداور عاشورے کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح کھلے میدانوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم گلی کے عین درمیان جانور گراتے ہیں۔ گلے پر چھری پھیرنے سے پہلے گھر کے کمزور دل بزرگوں و بیماروں اور معصوم دل بچوں کو پورے اہتمام سے جمع کرتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ خون ریز منظر دیکھنے سے بیماروں کو شفا، بزرگوں کے اعصاب کو مضبوطی ملے گی اور بچوں کے دل میں قربانی کا جذبہ پیدا ہوگا۔ حالانکہ اس پوری مشق سے ہماری طبعیتوں میں جو کچھ پیدا ہورہا ہوتا ہے وہ ہم آئے روز سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ انسانوں کی کٹی پھٹی اور جلی سڑی لاشوں کی تصاویر سوشل میڈیا اکاونٹس پر شئیر کرنے کا حوصلہ کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟
ہم اپنے ہونے کے اظہار کے لیے لاؤڈ سپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم اپنی قوت کا حجم ثابت کرنے کے لیے سڑک بلاک کرتے ہیں۔ ہم اپنے طیش کی سطح رجسٹر کروانے کے لیے دوچار گاڑیاں ضرور جلاتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ جانور کو گلی کے بیچ اگر نہیں گرائیں گے، خون سڑکوں پر نہیں بہائیں گے، آلائشیں جگہ جگہ نہیں پھینکیں گے، ناک پہ رکھ کر چھریاں تیز نہیں کریں گے، خون آلود کپڑے پہن کر کوئے جاناں کا طواف نہیں کریں گے تو پتہ کیسے چلے گا کہ ہم نے ایک مقدس فریضے کی انجام دہی کی ہے۔
باقی سرگرمیوں پر کلام کی جسارت تو چلیے اس لیے نہیں ہوسکتی کہ اس کے پہلو سیاسی ہیں، مگر جس فریضے کا تعلق براہ راست عبادت سے ہے اسے اپنے اور خدا تک ہی رکھا جائے تو کیا بہتر نہ ہوگا؟ بہتر تو شاید ہو مگر آسان ہرگز نہ ہوگا۔ کیونکہ خون کوگٹر لائن میں بہانا، آلائشوں کو ٹھکانے لگانا، چھریوں کی سرعام نمائش سے گریز کرنا، جانور کو مقتل میں تماشہ بنانے سے پرہیز کرنا ، یہ سب خود میں اور گرے ہوئے جانور میں ایک فرق کرنا ہے۔ اس فرق میں مگر لگتی ہے محنت زیادہ!
انسان سوچتا ہے کہ جس خداوند کی خوشنودی کے لیے ہزاروں لاکھوں کا بیل خریدا جا سکتا ہے، اس کی رکھوالی کے لیے وقت اور وسائل صرف کیے جاسکتے ہیں، اس کی قربانی کے لیے جہان بھر کا کشٹ اٹھایا جا سکتا ہے اسی خداوند کی خوشنودی کے لیے ماحولیاتی بد اخلاقیوں سے پرہیز کیوں نہیں کیا جاسکتا؟