تاریخ میں فاتحوں کے نام کے ساتھ اعظم کیوں لگتا ہے؟

تاریخ کی کتابوں میں فاتحوں کے ناموں کے ساتھ ’اعظم‘ کا لفظ لگایا جاتا ہے مگر وقت آ گیا ہے کہ فتوحات پر فخر کرنے کی بجائے قوموں کو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے۔

نپولین کوہِ ایلپس عبور کرتے ہوئے (مصور داوید: پبلک ڈومین)

تاریخ میں جب بھی قوموں کے عروج کا ذکر ہوتا ہے تو اس میں فتوحات کو بہادری اور عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور ان جرائم کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جن میں فاتحین نے قتل عام کیے، شہروں اور دیہاتوں کو لوٹ مار کر کے برباد کیا۔

اس خونریزی کی بنیاد پر انہیں عظیم یا Great کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ تاریخ نویسی میں یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا کیونکہ مورخ درباری ہوتے تھے اور اس کی سرپرستی کے باعث فتوحات کو عروج کا باعث قرار دیتے تھے۔

لہٰذا ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ فتوحات کے لیے جو جنگیں ہوئیں ان میں بادشاہوں اور جرنیلوں کے فوجی حربوں کی تعریف ہے۔ فوجیوں کو بہادری اور وفاداری کے نام پر جانیں دینے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

کوئی بھی قوم جب فتوحات کا سلسلہ شروع کرتی ہے تو اس کی بنیاد فوجی طاقت پر ہوتی ہے۔ اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے دوسرے ملکوں پر حملے کیے جاتے ہیں اور مال غنیمت کی لالچ انہیں کبھی مطمئن نہیں کرتی ہے۔ فتوحات کا نشہ ہوتا ہے، جس کی کوئی حد نہیں ہوتی، خاص طور سے فاتح جب مخالف کو شکست دیتا ہے تو اسے اپنی عظمت اور بڑائی پر فخر ہو جاتا ہے۔

اس کا اظہار وہ اس طرح بھی کرتا ہے کہ شکست کھانے والوں کی لاشوں کو رتھوں تلے کچلتا ہے۔ زندہ انسانوں کی کھالیں کھنچواتا ہے اور کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کراتا ہے۔ اس بنیاد پر یہ تاریخ میں عظیم ہو جاتے ہیں اور ان کے یہ جرائم کارنامے بن جاتے ہیں۔

یونان نے جب ٹرائے پر حملہ کیا تو اکیلیز (Achilles) اور ہیکٹر کے درمیان دو بہ دو مقابلہ ہوا تو اس میں ہیکٹر مارا گیا۔ اکیلیز نے ہیکٹر کے مردہ جسم کو رتھ کے ساتھ باندھ کر قلعے کے اردگرد گھسیٹا۔ اس منظر کو اس کے خاندان والے قلعے کی فصیل سے دیکھ رہے تھے۔

سکندر یونانی نے بھی جب فلسطین کو فتح کیا تو غزہ کے گورنر کو قتل کر کے اس کی لاش کو بھی گھسیٹ کر اپنی فتح کا اعلان کیا۔ بحیثیت فاتح کے سکندر نے یونان کی شہری ریاست تھیبز Thebes کے شہریوں کا قتل عام کیا اور جب یہ ایران کی فتح پر نکلا تو مصر میں 25 ہزار لوگوں کو قتل کر کے اپنی شان اور بڑائی کو ثابت کیا۔

اس کے قتل عام کا یہ سلسلہ رکا نہیں۔ اس نے افغانستان اور ہندوستان میں بھی اپنی خونریزی کی داستانیں چھوڑیں۔

لیکن بربریت اور خونریزی کے باوجود سکندر کو ’اعظم‘ بنایا گیا۔ یہاں تک کے دوسرے حکمران بھی اس کے نقش قدم پر چل کر خود کو جنگجو اور فاتح بنانا چاہتے تھے۔ مثلاً جولیس سیزر اکثر کہا کرتا تھا کہ اس کی عمر بڑھتی جا رہی ہے اور اس نے سکندر کی طرح کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔

لیکن جب اس کو موقع ملا تو اس نے قتل و غارت گری کے ذریعے اپنی شخصیت کو آگے بڑھایا اور گال میں فوج کشی کرتے ہوئے تقریباً 60 ہزار لوگوں کو قتل کیا۔

فتح کا یہی نشہ اسے انگلستان تک لے گیا، جہاں اس نے لوٹ مار کی اور ایک طاقتور فوجی رہنما بن گیا جس سے روم کی سینیٹ بھی ڈرتی تھی۔ اس کو بادشاہ بننے کی خواہش تھی جو اس کے قتل کا سبب بنی۔

رومی سلطنت میں یہ دستور تھا کہ اس جنرل کی تعریف کی جاتی تھی جس نے پانچ ہزار لوگوں کوقتل کیا ہو اور جب یہ فاتح جنرل مال غنیمت اور غلاموں کی بڑی تعداد لے کر جب روم آتے تھے تو ان کی فتح کا شاندار جلوس نکالا جاتا تھا۔

فتوحات کے سلسلے میں منگولوں نے بھی جو تباہی پھیلائی اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ چنگیز خان اور ان کے جانشینوں کے حملوں نے وسط ایشیا کے بڑے شہر جو علم کا مرکز تھے۔ انہیں جلا کر خاک کر دیا۔ بغداد کے شہر اور اس کے بیت الحکمت کو برباد کر کے شہریوں کا قتل عام کیا۔ اب مورخ منگولوں کی فتوحات کے سلسلے میں جو نتائج نکلے، اسے وہ منگول امن کا نام دیتے ہیں، کیونکہ ان کی قتل و غارت گری نے کوئی مخالف نہیں چھوڑا تھا۔

سکندر بننے کی خواہش جولیس سیزر ہی کو نہیں تھی بلکہ علاءالدین خلجی بھی اس کی فتوحات سے متاثر تھا اور اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فتوحات کا سلسلہ شروع کرنا چاہتا تھا۔

مگر جب اس کے ایک درباری نے اسے سمجھایا کہ دنیا کو فتح کرنے سے پہلے پورے ہندوستان کو فتح کر لو تو بہتر ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنے نام کے ساتھ سکندر ثانی کا اضافہ کر کے اپنے دل کو خوش کر لیا۔

جہاں حکمرانوں کو فتوحات کے ذریعے عظیم بننے کی خواہش تھی، وہیں ہندوستان میں دو حکمران ایسے تھے جنہوں نے جنگ کی تباہ کاریاں دیکھ کر جنگ کرنے سے توبہ کی۔ ان میں سے ایک موریہ سلطنت کا بادشاہ آشوک تھا۔ جس نے کلنگ کی لڑائی کے بعد جو جنگ کی تباہی دیکھی تو اس نے جنگ کی بجائے امن کی طرف توجہ دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاید یہ پہلا بادشاہ تھا جس نے جنگ کی خونریزی سے سبق سیکھا اور پھر اس کے بعد کوئی جنگ نہیں کی۔

نپولین کو بھی عظیم جرنیل اور فاتح گردانا جاتا ہے۔ وہ بارہا اس خواہش کا اظہار کرتا رہا کہ وہ سکندر ثانی بننا چاہتا ہے۔ یورپ کو ایک طرف چھوڑ کر مصر پر اس کی لشکر کشی کے پیچھے بھی یہی جذبہ کارفرما تھا کیوں کہ سکندر نے بھی مصر کو فتح کیا تھا۔ اسی کا بسایا ہوا شہر سکندریہ آج بھی قائم ہے۔

ہندوستان میں فیروز شاہ تغلق کی بھی یہ پالیسی تھی کہ فتوحات سے گریز کیا جائے اور جنگ سے دُور رہا جائے، کیونکہ جنگ کے نتیجے میں تو لوگ مارے جاتے ہیں اور خاندان کے خاندان تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ مورخ فیروز شاہ کی امن پسندی کو اس کی بزدلی سے تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک وہی حکمران قابل عزت ہے جو برابر فتوحات کرتا رہے، مال غنیمت لاتا رہے اور درباریوں کو نوازتا رہے۔

مورخوں کا یہ نقطہ نظر کہ فتوحات عروج کا باعث ہوتی ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرتا ہے، کیونکہ فتوحات جرائم کی مرتکب ہوتی ہیں۔ لوٹ مار کے مال سے کوئی بھی قوم عروج پر نہیں پہنچتی ہے۔ فتوحات کے جرائم اس کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ اس کی انسانیت ختم ہو جاتی ہے اور فاتح اپنے اقتدار کو قائم کر کے اپنی قوم میں مخالفت کو جنم دیتا ہے اور پھر ان مخالفین کو بھی دُشمنوں کی طرح قتل کر کے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کے اس بیانیے کو بدلنا چاہیے اور فاتحین کو عظیم بنانے کے بجائے مجرم بنا کر انہیں ان کے مرتبے سے گرا کر ان کی خونریزی اوربربریت کی مذمت کرنی چاہیے۔

تاریخ نویسی کی زبان کو بھی بدلنا چاہیے جس میں بہادری اور شجاعت کی تعریف اس لیے کی جاتی ہے کہ ان کے زیراثر لوگوں کو قتل کیا گیا۔

جب تک تاریخ کے اس نقطہ نظر کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، قاتل اور لٹیرے عظیم شخصیتوں کے مالک ٹھہریں گے، لہٰذا فتوحات پر فخر کرنے کی بجائے قوموں کو اس پر شرمندہ ہونا چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ