چنگیز خان نے منگول قبائل کو متحد کرکے فتوحات کے ذریعے ایک بڑی ایمپائر قائم کی تھی۔ روایتی تاریخ میں سارے کارنامے ایک فرد سے منسوب کرکے اُسے عظیم بنا دیا جاتا ہے۔ جبکہ اُس کے ساتھ کام کرنے والوں اور اُن کی محنت اور قربانی کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
منگول سلطنت کے قیام میں جہاں منگول جرنلز اور امرا شامل تھے وہیں اس کی تشکیل میں منگول عورتوں کا بڑا حصہ رہا ہے۔ خاص طور سے چنگیز خان کے ابتدائی کردار میں اُس کی ماں ہیلوئن اور اس کی پہلی بیوی بورتہ خاتون اس کو سیاسی معاملات میں مشورے دیتی رہی تھیں۔
این ایف براڈبرج نے اپنی کتاب ’خواتین اور تاریخ سازی‘ میں ایسی منگول خواتین کا ذکر کیا ہے کہ جنہوں نے منگول سلطنت کی تشکیل میں حصہ لیا تھا۔
چنگیز خان سے پہلے منگول خاندان بکھرے ہوئے تھے اور عورتیں غیرمحفوظ تھیں۔ کیونکہ اُنہیں اغوا کر لیا جاتا تھا اور اُن کی عصمت دری کی جاتی تھی۔ غیرمحفوظ ہونے کے باوجود وہ آزاد تھیں اور ایک حد تک اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتی تھیں۔ چنگیز خان نے جب منگولوں کو متحد کیا تو اُس کے خاندان کی عورتوں کی عزت بڑھ گئی اور وہ سیاسی اور سماجی معاملات میں حصہ لینے لگیں۔
منگول سوسائٹی میں عورت کی اُس وقت اہمیت ہوتی تھی جب وہ شادی شدہ ہو، بچوں کی ماں ہو یا بیوہ ہو۔ ان تینوں صورتوں میں گھریلو انتظام کی ذمہ داری اس کی ہو جاتی تھی۔ مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا، کیمپ کا انتظام کرنا، بچوں کی پرورش کرنا، سیاسی معاملات میں اپنے شوہر کو مشورے دینا، لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیوں کو سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال بھی کیا جاتا تھا یعنی شادیاں سیاسی خاندانوں میں کی جاتی تھیں۔ عورتوں کو بھی اعلیٰ اور سیاسی خاندانوں کی بنیاد پر دیکھا جاتا تھا۔
یعنی وہ عورتیں جو دولت مند خاندانوں سے ہوتی تھیں اُن کا سماجی رتبہ بھی بڑا ہوتا تھا۔ چنگیزی مرد بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے جو کئی کئی شادیاں کرتے تھے۔ لیکن پہلی بیوی کی عزت زیادہ ہوتی تھی۔ شادی کے وقت لڑکی کی قیمت ادا کی جاتی تھی۔ لڑکی جہیز لاتی تھی جس میں سونا، چاندی، مال مویشی وغیرہ ہوتا تھا اور جہیز میں ملازم بھی ہوتے تھے۔ لیکن جہیز عورت کی جائیداد ہی رہتی تھی۔
اس کے بعد مویشی لڑکوں کو ملتے تھے جبکہ زیورات اور کپڑے لڑکیوں میں وراثت کے طور پر تقسیم ہو جاتے تھے۔ اگر لڑکا لڑکی کی قیمت ادا نہیں کر پاتا تھا تو وہ سُسر کی ملازمت کرکے رقم کی ادائیگی کرتا تھا۔
چنگیز خان کے دور سے پہلے نوجوان جب عورت کی یعنی دلہن کی قیمت ادا نہیں کر پاتے تھے تو وہ اُس عورت کو اغوا کر لیتے تھے۔ جیسا کہ چنگیز خان کے باپ نے کیا تھا۔ اُس نے اپنی بیوی ہیلوئن کو اغوا کر لیا تھا۔ جس سے بعد میں چنگیز خان پیدا ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شادی اپنے قبیلے میں نہیں کی جاتی تھی بلکہ دور کے قبیلوں میں کی جاتی تھی۔ شادی کے سلسلے میں ماں زیادہ متحرک ہوتی تھی اور رشتہ بھی وہی تلاش کرتی تھی۔ اگر عورت کا شوہر مر جاتا تھا تو اس صورت میں وہ شوہر کے بھائی یا خاندان کے قریبی مرد سے شادی کر لیتی تھی۔ اس طرح عورت کو خاندان میں ہی شوہر مل جاتا تھا اور وہ اپنے لیے کسی مرد کی تلاش کی زحمت سے بچ جاتی تھی اور وہ محفوظ بھی ہو جاتی تھی۔ لیکن شاہی خاندان کی عورتیں بیوہ ہونے کے باوجود دوسری شادی نہیں کر سکتی تھیں۔
شاہی خاندان کے مرد حضرات اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ برابر کا سلوک کریں۔ ہر عورت کے لیے علیحدہ رہائش اور نوکر فراہم کیے جاتے تھے۔
عام طور سے منگول خاندان میں امرا چار بیویاں رکھتے تھے اور اُن کے الگ الگ خیمے ہوتے تھے جہاں وہ رہتی تھیں لیکن سینیئر بیگم کے احکامات ماننا سب پر ضروری تھا۔
ان چار بیویوں کے علاوہ اور بھی عورتیں اور کنیزیں ہوتی تھیں جو اُن کی خدمت بجا لاتی تھیں۔ چنگیز خان اپنی بیویوں کے خیموں میں جا کر الگ الگ اُن کی خیریت دریافت کرتا تھا۔ خیموں کی حفاظت کے لیے شاہی گارڈ ہوتے تھے اور کچھ بیگمات علیحدہ سے بھی اپنے محافظ رکھتی تھیں۔
سینیئر بیگم خان کے ساتھ ساتھ ہوتی تھی جس میں سے سات سے نو بچے ہوتے تھے جبکہ جونیئر بیویوں کے دو یا تین بچے ہوا کرتے تھے۔ سینیئر بیگم دعوتوں میں خان کے ساتھ بیٹھتی تھی جبکہ جونیئر بیگمات کی جگہ علیحدہ ہوتی تھی اور مہمان نوازی میں بھی سینیئر بیگم پیش پیش ہوتی تھی۔ شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ کی عزت کی جاتی تھی اور دیگر عورتوں اور کنیزوں کا گلا گھونٹ کر اُن کو مار دیا جاتا تھا۔
تیرہویں صدی میں جب دو مشنری عیسائی منگولیہ آئے تو اُنہوں نے مردوں اور عورتوں کے فرائض کا ذکر کیا، مثلاً گرمی اور سردی میں منگول اپنا کیمپ تبدیل کرتے تھے۔ توعورتیں گاڑی میں سامان لادنے اور اتارنے کا کام کرتی تھیں اور گاڑی بھی خود چلاتی تھیں۔ عورتیں مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور مرد گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔
مرد گھوڑی کے دودھ کی شراب تیار کرتے تھے جبکہ عورتیں مکھن بناتی تھیں اور کھالوں سے لباس تیار کرتی تھیں جبکہ مرد شکار یا مہم پر جاتے تھے تو بیگمات فوراً کیمپ کا انتظام سنبھال لیتی تھیں جبکہ چنگیز خان مہم پر جاتا تو ایک بیگم کو ضرور ساتھ لے جاتا تھا اور باقی بیگمات کیمپ میں ہی رہتی تھیں۔
جب ابن بطوطہ نے منگولیہ کا سفر کیا تو ازبک خان کی سینیئر بیگم نے اس کا استقبال کیا اور اس کو کھانے کے لیے پھل پیش کیے۔ بیگم کے ساتھ 19 اور ملازم عورتیں تھیں جو اُس کے کام میں مدد کر رہی تھیں۔ چنگیز خان کے بعد اس کے جانشینوں کے زمانے میں شاہی محافظوں کی اہمیت ہو گئی تھی۔
یہ بہت سے گھریلو کام کاج میں حصہ لینے لگے تھے۔ باورچی خانے کی دیکھ بھال اور کھانے کی تقسیم بھی کرنے لگے تھے۔ ہر بیگم کے لیے ملازم ہوتے تھے۔ کچن کا خرچہ علیحدہ سے کیا جاتا تھا۔ لباس اور زیورات کا رواج تھا اور سواری کے لیے اونٹ یا گاڑیاں ہوتی تھیں۔ ہر ایک پر خرچہ اس کی حیثیت کے مطابق کیا جاتا تھا۔
ایک مشنری عیسائی کے مطابق ایک بیگم کی خدمت کے لیے دو سو گاڑیاں ہوتی تھیں۔ کنیزیں گھریلو کام کاج کرتی تھیں اور اپنا وقت سینے پُرونے اور کڑھائی کرنے میں گزارتی تھیں۔
چنگیز خان کے بعد منگول ایمپائر کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا۔ اس لیے شاہی خاندان کے ملازموں کی تعداد کئی سو گنا ہو گئی تھی۔ جن میں عورتیں اور مرد ملازم شامل تھے۔ ان کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد میں بھی کئی سو اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ شاہی خاندان میں شادیاں کرتے تھے۔ بازنطینی خاندان میں سے بھی دولت آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور مال غنیمت میں سے بھی عورتوں کو حصہ ملتا تھا۔
طاقتور ہونے کے بعد منگولوں نے اغوا کر کے شادی کرنے کا سلسلہ ختم کر دیا تھا۔ جہیز کا بہرحال رواج تھا۔ عورتیں تجارت میں پیسہ بھی لگاتی تھیں بلکہ چائنیز، ترک اور مسلم تاجروں کے ذریعے تجارت بھی کرتی تھیں۔
منگول سلطنت کے مستحکم ہونے کے بعد مفتوح حکمران شاہی خواتین کو تحفے تحائف دیا کرتے تھے۔ اُن کو جاگیریں بھی دی جاتی تھیں۔ کاریگر اور ہنرمند اُن کے ملازم ہوا کرتے تھے جو اشیا تیار کرکے فروخت کرتے جس کا منافع بھی شاہی خواتین کو جاتا تھا۔ اس لیے اُن کے پاس مالی وسائل وافر ہوتے تھے اور اس کے علاوہ مویشی، زمین، تحفے تحائف اور مالِ غنیمت کی بھی بہتات ہو جاتی تھی۔
عورتیں مذہبی معاملات میں آزاد تھیں۔ عورتوں کا پرانا مذہب شامانی تھا۔ نسطوریت، بدھ مت، عیسائیت اور اسلام کو ماننے میں وہ آزاد تھیں۔ کچھ عورتیں اپنا عبادت خانہ ساتھ لے کر چلتی تھیں اور مذہبی رسومات ادا کرنے میں بھی آزاد تھیں۔
چنگیز خان کی وفات کے بعد اُس کی بیوائیں سیاست میں حصہ لینے لگی تھیں اور جب خان کا انتخاب ہوتا تھا تو کرولتائی یا اسمبلی بلائی جاتی تھی جس میں خاندان کے علاوہ تمام منگول امرا بھی شریک ہوتے تھے۔ اس موقع پر چنگیز کی بیوائیں اپنے اپنے لڑکوں کے لیے خان کے عہدے کے لیے اسمبلی کے اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اسی وجہ سے ہر انتخاب کے موقع پر اکثر جھگڑے ہو جاتے تھے۔ بالآخر انہی جھگڑوں کی وجہ سے خانہ جنگی بھی ہوئی جس کی وجہ سے منگول ایمپائر کا شیرازہ بکھر گیا۔
اس پوری تفصیل میں حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والی عورتوں کا ذکر ہے جبکہ عام اور نچلے درجے کی عورتوں کو نظرانداز کیا گیا ہے اور اُن کے بارے میں نہیں بتایا گیا کہ منگول سلطنت کے بنانے میں انہوں نے کیا حصہ ادا کیا۔