اگر عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ سے دنیا بھر میں ہونے والی تباہی کے محرکات میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم، لیکن اس تباہی سے ہونے والی مصیبتیں جھیلنے والے ابتدائی سات ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے تو ہم پر یہی محاورہ صادق آتا ہے کہ ’کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے!‘
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کُھلا
تو کیا ہمیں عالمی حدت میں اضافے کے عوامل کو کم کرنے پر زیادہ توجہ صرف کرنی چاہیے یا اس سے مستقبل میں آنے والی تباہیوں کو جھیلنے کے لیے اپنے انفراسٹرکچر کو مضبوط اور اپنی استعداد و توانائی کو بڑھانے کے بارے میں نہ صرف سوچنا بلکہ فوری طور پر اس کے لیے اپنے سارے وسائل بروئے کار لانے چاہییں۔
موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور تقریباً دنیا کا ہر فرد اس سے متاثر ہوگا۔ روزمرہ کے وہ کون سے عوامل ہیں جن میں ہمیں تبدیلی لانا ہو گی، یا پھر وہ کون سے شعبے ہیں جو حکومت کی فوری ترجیح ہونے چاہییں، جن میں بہتری لا کر وہ نہ صرف ملک کو آنے والی آفات سے بچا سکے یا تباہی کے اثرات کو کم کر سکے بلکہ اس کے ساتھ ہی عوام کو بھی مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور ناخواندگی کی دلدل سے باہر نکال سکے؟
حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے مندرجہ بالا جملے لکھتے ہوئے مجھے کچھ عرصہ قبل ایک وزیر کا بیان یاد آگیا جو انہوں نے چینی کی خود ساختہ قلت کے حوالے سے دیا تھا۔
آپ خود ہی سوچیے کہ اگر کسی ملک میں روزمرہ اشیا خورد و نوش ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے کم یاب ہو جائیں تو وہاں کیا اقدامات کیے جائیں گے اور یہاں ہمارے وزیر موصوف فرماتے ہیں کہ ’تو کیا ہوا، عوام کو چاہیے کہ چینی کا استعمال کم کر دے اور چائے میں دو چمچ چینی کے بجائے ایک چمچ ڈالیں یا بالکل ہی نہ ڈالیں۔‘
وزیر صاحب کا یہ بیان قلم بند کرتے ہوئے مجھے فرانس کی ملکہ میری انتونیت کا کہا ہوا وہ مشہورِ زمانہ جملہ بھی یاد آ گیا، جو انہوں نے فرانس کے دیہاتوں میں کسانوں کے بھوک سے مرنے پر ادا کیا تھا:
’غریب لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو کیا ہوا وہ کیک کھالیں۔‘
مگر مؤرخین کہتے ہیں کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ملکہ نے ایسا کوئی بے رحمانہ جملہ ادا کیا ہو، مگر ہماری سیاسی تاریخ تو ایسے بے حس بیانات سے بھری پڑی ہے۔
اس پر ہم بعد میں بات کریں گے کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے لیکن سب سے پہلے انفرادی طور پر کیا کیا جاسکتا ہے، اس پر بات کر لیتے ہیں۔
اپنے بچوں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی پر بات کرنا والدین کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ بچوں کو نقصان اور پریشانی سے بچانا والدین کے لیے ایک فطری عمل ہے۔ اگر آپ کا بچہ ایک خاص عمر کا ہے تو بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں سُن رہا ہو۔
پھر چاہے وہ ذریعہ اس کا اسکول ہو، دوست ہوں یا پھر انٹرنیٹ۔ اگرچہ آپ اپنے بچے کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے مسائل کو حل نہیں کر سکتے لیکن آپ حقائق کو دریافت کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ انہیں سمجھا سکتے ہیں کہ وہ اس میں اکیلے نہیں آپ بھی ان کے ساتھ ہیں۔
کسی کے پاس بھی موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں تمام جوابات نہیں ہیں اور اگر آپ کے پاس بھی نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں۔ بہت سی قابلِ اعتماد ویب سائٹس ہیں، مضامین ہیں، ویڈیوز ہیں جو آپ کو اپنے حالات کے مطابق جوابات حاصل کرنے میں رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔
اپنے بچوں کو اس مسئلے کا حل دکھانے کی کوشش کریں۔ اس بارے میں بات کریں کہ آپ ایک خاندان کے طور پر کیا اقدامات کر سکتے ہیں، جیسے کہ گھر میں چیزوں کو ضائع نہ کرنا، کم سے کم گندگی پھیلانا، کچرے کو کوڑے دان میں اور کوڑے دان کو میونسپلٹی کی گاڑی میں خالی کرنا۔
پانی کی بچت، ری سائیکلنگ، غیر استعمال شدہ لائٹس اور آلات کو بند کرنا۔ اس سے بچوں کے ذہن میں اس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ہر کوئی اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔
پانی اور موسمیاتی تبدیلی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر کے پانی کو پیچیدہ طریقوں سے متاثر کر رہی ہے۔ غیر متوقع بارشوں سے لے کر پگھلتی ہوئی برف کی چادروں تک، سطحِ سمندر میں اضافہ، سیلاب اور خشک سالی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے زیادہ تر اثرات پانی پر ہی آتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی پانی کی کمی اور پانی سے متعلقہ خطرات دونوں ہی کو بڑھا رہی ہے، کیوںکہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور بے وقت اور موسلا دھار بارش پورے آبی چکر کو متاثر کر رہے ہیں۔
آج دنیا بھر میں تقریباً دو ارب لوگوں کی صاف پانی تک رسائی نہیں ہے اور دنیا کی تقریباً نصف آبادی سال کا کچھ حصہ پانی کی شدید قلت کا شکار رہتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے اس کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
زمین پر پانی کا صرف 0.5 فیصد قابلِ استعمال اور میٹھا ہے اور موسمیاتی تبدیلی خطرناک حد تک اس شرح کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ گذشتہ 20 سالوں میں زمینی پانی کے ذخائر، بشمول مٹی کی نمی اور برف، ہر سال ایک سینٹی میٹر کی سطح سے گر رہے ہیں، جس سے پانی کی حفاظت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
گلوبل وارمنگ سے انسانوں اور جانداروں کے صاف پانی سے دور ہوتے جانے کی داستان کافی طویل ہے، لہٰذا اسے یہیں روکتے ہوئے اس پر بات کرتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں موجود پانی کے ذخائر کو کیسے محفوظ کر سکتے اور نئے وسائل کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحت مند آبی ماحولیاتی نظام اور پانی کا بہتر انتظام، جس میں اسے باہر کی آب و ہوا سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ مینگروز، سمندری گھاس اور دلدل جیسی آبی زمینیں، کاربن کو جذب کرنے کی متاثر کن صلاحیتیں رکھتی ہیں، جس سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مرطوب زمینیں انتہائی موسمی حالات کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔ یہ طوفانی لہروں کے خلاف قدرتی ڈھال فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اضافی پانی کو بھی حذب کر لیتی ہیں۔
مرطوب زمینوں پر جو پودے اور مائیکرو اورگینیزمز رہتے ہیں، ان کی مدد سے گیلی زمینیں پانی کو ذخیرہ کرنے اور صاف کرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔ سیلاب، خشک سالی اور پانی سے متعلق دیگر خطرات کے لیے ابتدائی انتباہی نظام پر کی جانے والی سرمایہ کاری 10 گنا منافع فراہم کرتی ہے اور تباہی کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کرسکتی ہے۔
آنے والے طوفان کی 24 گھنٹے پہلے اطلاع، ہونے والے نقصان کو 30 فیصد سے بھی زیادہ کم کر سکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بہتر پانی کی فراہمی اور صفائی کا نظام جو موسمیاتی تبدیلیوں سے مقابلہ کر سکتے ہیں، وہ ہر سال ایک محتاط اندازے کے مطابق 36 سے 40 لاکھ بچوں کی جان بچا سکتے ہیں۔
ماحولیات سے ہم آہنگ زرعی نظام پانی کو زیادہ موثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے میٹھے پانی کی سپلائی کی طلب کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیموں کی تعمیر جو کسی بھی ملک و قوم کے پانی کے وسائل کو محفوظ بنانے اور اپنی ضرورت کے مطابق اسے استعمال کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔
گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے اقدامات بنیادی طور پر حکومتی سطح پر ہی کیے جا سکتے ہیں اور اعلیٰ حکام کی دلچسپی اور شبانہ روز محنت ہی سے یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے جس سنجیدگی اور دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمیں اپنے موجودہ اداروں میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ؎
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔