بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں رفیق شاگو کی اہلیہ فہمیدہ جمعے کی نماز کے کچھ دیر بعد اس وقت ہلاک ہو گئیں جب آنسو گیس کا ایک گولہ ان کی کھڑکی توڑ کر اندر آ گرا اور پورا گھر دھویں سے بھر گیا۔
تاہم جہاں بھارتی حکام کا اصرار ہے کہ دو ہفتے سے جاری لاک ڈاؤن کے نفاذ میں فوج کسی عام شہری کی ہلاکت کی وجہ نہیں بنی، وہیں سری نگر کے رفیق شاگو اب کشمکش میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کی موت کے ذمہ دار افراد کو کیسے سزا دلوائیں۔
اے ایف پی سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’پولیس ان کی موت کی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں۔ ہمیں جواب چاہیے مگر میں نہیں جانتا کہ انصاف کہاں تلاش کروں۔‘
نو اگست کی وہ ناگہانی دوپہر یاد کرتے ہوئے رفیق شاگو نے بتایا کہ فہمیدہ گھر میں ان کے دو بچوں کو پڑھا رہی تھیں۔
ان کے مطابق قریب میں ہی بھارتی فوجیوں اور مظاہرین کے درمیان چھوٹی جھڑپیں ہوئی تھیں، لیکن پھر پولیس نے گھروں میں آنسو گیس کے گولے فائر کرنا شروع کر دیے۔
یہ جھڑپیں بھارتی حکومت کے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی خودمختار حیثیت ختم کرنے اور فیصلہ نافذ کرنے سے پہلے ہزاروں فوجیوں کو کشمیر بھیجنےکے چار دن بعد ہوئیں۔
رفیق شاگو نے بتایا: ’کمرے میں دھواں اتنا زیادہ تھا کہ ہم ایک دوسرے کو نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ جب وہ شیلز پھٹے تو تین اونچی آوازیں آئیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم نے کسی طرح بچوں کو وہاں سے نکال لیا، لیکن افراتفری میں جب فہمیدہ باہر آنے کے لیے بھاگیں تو وہ گر گئیں۔ جب تک ہم ان کو کمرے سے نکالنے میں کامیاب ہوئے تب تک وہ بےہوش تھیں اور منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔‘
فہمیدہ کو موٹرسائیکل پر ہسپتال لے جایا گیا مگر ڈاکٹر انہیں بچا نہ سکے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ملنے والی میڈیکل رپورٹ کے مطابق فہمیدہ نے ’آنسو گیس شیل سے زہریلی گیس میں سانس لیا تھا‘ اور موت کی ممکنہ وجہ ’زہر کی وجہ سے پھیپھڑوں کو پہنچنے والا نقصان‘ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب سے وادی میں لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، بھارتی حکام کی کوشش رہی ہے کہ کشمیر سے کوئی بھی خبر باہر آنے نہ پائے۔
ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کے علاوہ، حکام نے لینڈ لائن، موبائل فون اور انٹرنیٹ بند کر رکھے ہیں، البتہ گذشتہ کچھ دنوں میں بعض جگہوں پر لینڈ لائن وون بحال ہوگئے ہیں۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیر میں کسی کی ہلاکت ہوئی ہو، اور صرف آٹھ لوگ ہی زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم ہسپتالوں میں ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ کم سے کم 100 لوگ زخمی ہوئے ہیں اور ان میں سے کچھ کو گولیوں کے زخم آئے ہیں۔
دوسری جانب بندوق کے چھروں سے زخمی ہونے والوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ کچھ زخمیوں کا علاج گھروں میں ہی کیا گیا کیونکہ ڈر تھا کہ اگر وہ ہسپتال جائیں گے تو گرفتار کر لیے جائیں گے۔
اے ایف پی نے دو ایسے افراد کے اہل خانہ سے بھی بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ دونوں سکیورٹی فورسز کے تشدد میں ہلاک ہوئے۔
ان میں ایک کا نام عصیب احمد ہے جو 15 سال کے طالبعلم تھے اور وہ پانچ اگست کو ڈوب گئے تھے۔
ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر کے نزدیک تھے جب پولیس نے گولیاں اور آنسو گیس شیل فائر کیے اور مظاہرین کا دریا کنارے تک پیچھا کیا جہاں عصیب ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔
عصیب کے ایک رشتہ دار نے بتایا: ’لاش پانی سے پانچ گھنٹے بعد نکالی گئی اور ان کے جنازے پر بھی پولیس نے حملہ کر دیا۔‘
ممکنہ خطرات کے مددنظر ان رشتہ دار کا نام نہیں لیا جا رہا۔
انہوں نے مزید کہا: ’پولیس نے لاش کو چھین کے لے جانے کی کوشش بھی کی کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ مزید مظاہرے ہو سکتے ہیں ۔‘
ایک اور مبینہ متاثرہ شخص محمد ایوب ہفتے کوسری نگر میں اپنے گھر کے باہر کھڑے تھے جب پولیس نے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
ان کے اہل خانہ اور ہمسائیوں کے مطابق، دو گولے 62 سالہ ایوب خان کے سامنے گرے۔ وہ فوراً نیچے گرے اور ان کے منہ سے جھاگ بہنا شروع ہو گیا۔
تین بیٹیوں کے والد کو ہسپتال میں مردہ قرار دیا گیا اور پولیس زبردستی ان کی لاش کو لے گئی۔
اہل خانہ نے بتایا کہ صرف دس رشتہ داروں کو ان کے جنازے اور تدفین میں شامل ہونے دیا گیا جو رات کے اندھیرے میں پولیس کی نگرانی میں پیش آیا۔
ایوب خان کے چھوٹے بھائی شبیر احمد نے اے ایف پی کو بتایا: ’پولیس افسر نے ہمیں دھمکی دی کہ اگر ہم نے میڈیا سے بات کی یا جنازے کا جلوس بنانے کی کوشش کی تو وہ لاش کو دریا میں پھینک دیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں چار پولیس گاڑیوں کی نگرانی میں قبرستان لایا گیا۔‘
ایوب کے اہل خانہ کئی بار ان کی موت کا سرٹیفیکیٹ لینے ہسپتال گئے ہیں مگر ڈاکٹروں نے انہیں کہا کہ پولیس نے انہیں ایسا کرنے سےمنع کیا ہے۔
شبیر احمد خان نے کہا: ’حکومت شاید کبھی ایوب کی موت کا اندراج نہ کرے، لیکن ہمارے لیے وہ شہید ہیں۔ ان کی موت بھارت کی بربریت کی ایک اور مثال ہے۔‘
مزاحمت کی کال
دوسری جانب علیحدگی پسند رہنماؤں نے کشمیریوں پرزور دیا ہے کہ وہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں لوگوں کے اکٹھا ہونے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کریں اور جمعے کو نماز کے بعد ایک بڑے مظاہرے میں شریک ہوں۔ کشمیر میں سینکڑوں سیاسی رہنما اور کارکن، جن میں علیحدگی پسند بھی شامل ہیں، جیلوں میں قید ہیں، اور ان کی جانب سے یہ اپیل پوسٹروں میں نظر آئی جو راتوں رات سری نگر میں لگے ملے۔
تمام علیحدگی پسند گروپوں کی تنظیم جوائینٹ ریزسٹنس لیڈرشپ کے ایک پوسٹر میں کہا گیا: ’ہر کسی کو جمعے کی نماز کے بعد مارچ میں ہونا چاہیے، چاہے وہ بچے ہوں یا جوان، مرد ہوں یا خواتین۔‘
پوسٹر کے مطابق، مظاہرین کو اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور کے دفتر تک مارچ کرنا ہے جو 1949 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر جنگ کے بعد سری نگر میں قائم ہوا تھا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ اگست کو کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قدم کشمیر میں 30 سال سے جاری مزاحمت کو مزید طاقت دے گا جس میں اب تک 50 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔
بدھ کو بھارتی فوجیوں اور شدت پسندوں کے درمیان بارہ مولہ میں ایک مسلح جھڑپ میں ایک شدت پسند اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ پانچ اگست کے لاک ڈاؤن کے بعد پہلی ایسی جھڑپ تھی۔
اجتماعات پر پابندی ہونے کے باوجود اب تک کشمیر میں کئی ایسے مظاہرے ہو چکے ہیں۔
سری نگر میں کچھ کشمیریوں نے کہا کہ وہ جمعے کے مظاہرے میں حصہ لینے کی کوشش کریں گے۔
ایک مسجد کے پاس لگے ہوئے پوسٹر پڑھتے ہوئے ایک شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا: ’ہم کوشش کریں گے، لوگ جانے کی کوشش کریں گے۔ مگر ہمیں نہیں پتہ کہ وہ (سکیورٹی فورسز) ہمیں جانے دیں گے یا نہیں۔‘
زینہ کادل میں ایک اور شخص نے کہا: ’اگر ہمارے لیڈر بلائیں گے تو ہم جائیں گے۔ مظاہرے ہوں گے۔ ہمارے مظاہرے نہیں رکیں گے۔‘