2023 میں ایک کیس کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور نامور وکیل کپل سبل نے ایک مقدمے کی بحث کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی زیر صدارت بنچ کے سامنے بشیر بدر کا ایک شعر پڑھا تو تھوڑی دیر کے لیے مقدمے سے ہٹ کر بحث کا رخ اردو زبان کی طرف ہو گیا۔
سابق چیف جسٹس نے اردو کو خوبصورت زبان کہا، لیکن سبل نے بحث کو سمیٹتے ہوئے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اردو کو مرتی ہوئی زبان قرار دیا تھا۔ دو سال بعد اسی سپریم کورٹ سے اردو کے حوالے سے کل ایک فیصلہ آیا ہے جس کو علمی و ادبی حلقوں میں کافی سراہا جا رہا ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ آف انڈیا کے دو رکنی بنچ نے اردو کے متعلق ایک فیصلہ دیا جس میں کچھ دلچسپ ریمارکس شامل ہیں- مثلاً ’اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی،‘ ’زبان مذہب نہیں بلکہ کلچر ہے،‘ ’اردو کے متعلق غلط فہمی کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ یہ زبان کہیں باہر سے آئی‘ اور ’اردو ہندوستانی کلچر یعنی گنگا جمنی تہذیب کی ایک بہترین مثال ہے،‘ وغیرہ وغیرہ۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی کہانی ریاست مہاراشٹر کے ضلع اکولہ کی پتور نامی میونسپل کونسل سے شروع ہوتی ہے۔ وہاں کے ایک سابق کونسلر کو یہ اعتراض تھا کہ اردو کو میونسپلٹی کے سائن بورڈز یعنی کتبوں سے ہٹایا جائے۔ کونسلر یہ معاملہ بمبئی ہائی کورٹ میں لے گئے۔
بمبئی ہائی کورٹ نے مہاراشٹر لوکل اتھارٹیز سرکاری زبانیں ایکٹ، 2022 کا حوالہ دیتے ہوئے بلدیہ کے کتبوں پر ہندی اور مراٹھی کے ساتھ اردو کا لکھا جانا بھی درست قرار دے دیا۔
درخواست گزار نے بمبئی ہائی کورٹ کے آرڈر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس کا کل حتمی فیصلہ آیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے عدالت عالیہ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
دو رکنی بنچ کا یہ فیصلہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے تحریر کیا جو اس بنچ کی سربراہی بھی کر رہے تھے، بنچ کے دوسرے رکن جسٹس کے ونود چندرن تھے۔ فیصلے میں تقسیم ہند کی وجہ سے انڈیا میں اردو کو ہونے والے نقصان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
بینچ نے انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’انہوں نے مانا تھا کہ ہندوستانی انڈیا کی لنگوا فرینکا ہو گی‘ اور ’آزادی کی تحریک کے دوران یہ واضح تھا کہ ہندوستانی ملک کی قومی زبان ہو گی۔ اب یہ واضح ہے کہ تقسیم ہند کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر بھی اردو ہوئی۔‘
انڈیا کے باپو کہلانے والے مہاتما گاندھی جی کی متعدد تحریروں سے بھی ’ہندوستانی‘ کو انڈیا کی قومی زبان بنانے کی وکالت ملتی ہے۔ ہندوستانی سے مراد سنسکرت اور فارسی سے الگ عام لوگوں کی بول چال کی زبان تھی جو اس وقت اردو سے قریب تھی۔
وکی پیڈیا پر اردو برصغیر کی سب سے بڑی زبان
15 جولائی 2023 کو انڈپینڈنٹ اردو کے لیے ’کیا انڈیا میں اردو واقعی مر رہی ہے؟‘ کے عنوان سے اپنے بلاگ میں راقم نے مشہور انڈین انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے ڈیٹا سیکشن میں اردو کے حوالے سے اعداد و شمار کی روشنی میں یہ تبصرہ کیا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ انڈیا میں اردو ختم ہو رہی ہے۔
ان اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی مشہور 320 زبانوں میں ویکیپیڈیا پر دستیاب آرٹیکلز میں سب سے زیادہ آرٹیکلز انگریزی میں دستیاب ہیں۔
اس میں کل آرٹیکلز کی تعداد 66 لاکھ 71 ہزار 236 ہے۔ حیران کن طور پر انگریزی کے بعد دوسرا نمبر فلپائن کی ایک علاقائی زبان سیبانو کا ہے جس میں کل 61 لاکھ 23 ہزار 197 آرٹیکلز دستیاب ہیں۔
دنیا کی دوسری مشہور زبانوں میں جرمن (28.6 لاکھ)، سویڈش (25.1 لاکھ)، ڈچ (21.2 لاکھ) اور فرانسیسی (25.3 لاکھ) زبانوں کا نمبر آتا ہے جن میں وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کی اچھی تعداد ہے۔ چینی زبان میں دستیاب آرٹیکلز کی تعداد 13.6 لاکھ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا میں آئینی تسلیم شدہ زبانوں میں اردو سر فہرست ہے جس کو وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کی دستیابی میں سبقت حاصل ہے۔
اردو میں دستیاب آرٹیکلز کی تعداد 1.91 لاکھ ہے۔ اس کے بعد بالترتیب ہندی (1.57 لاکھ)، تامل (1.54 لاکھ) اور بنگلہ (1.4 لاکھ) کے نمبر آتے ہیں۔
حالیہ اعداد و شمار تو بتاتے ہیں کہ وکی پیڈیا پر برصغیر میں بولی جانے والی معروف زبانوں میں سب سے زیادہ آرٹیکلز اردو میں دستیاب ہیں۔
اردو پر سیاست
رواں سال کے فروری مہینے میں ریاست اتر پردیش اسمبلی کے بجٹ سیشن کے دوران اپوزیشن جماعت سماج وادی پارٹی کے ماتا پرساد پانڈے نے ہاؤس کی کارروائی کو اردو میں ترجمہ کرنے کی مانگ کی تو اس پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھڑک اٹھے اور اسے مولویوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے اپوزیشن پر تنقید کی کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں جبکہ لوگوں کے بچوں کو مولوی بنانا چاہتے ہیں۔
اس کے لیے انہوں نے ایک ایسا لفظ بھی استعمال کیا جو انڈیا میں مسلمانوں کے لیے گالی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اسمبلی کی کارروائی کا ترجمہ اودھی، بھوجپوری، برج اور بندیلی کے علاوہ انگریزی اور ہندی میں ہو رہا تھا اور اپوزیشن رہنما کا کہنا تھا کہ اردو چونکہ ریاست میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے اس لیے اسے بھی اس کارروائی کا ترجمہ کرنے کے لیے شامل کیا جانا چاہیے۔
اتر پردیش میں اردو پر سیاست اور اسے مسلمان بنانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس کی ابتدا آزادی کے وقت سے ہی ہو گئی تھی اور آزادی کے بعد دو تین انتخابات تک اردو بھی ایک مدعا رہتی تھی۔
بعض ریاستوں میں تین زبانوں کے فارمولے کی آڑ میں جان بوجھ کر اردو کو کنارے لگایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں آئین کے دفعہ 343 کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’آئین سازوں کا اس دفعہ میں سرکاری زبانوں کے حوالے سے ہندی اور انگریزی کا خصوصی ذکر یہ مطلب نہیں تھا کہ ہندوستانی اور اردو کو ختم کر دیا جائے۔‘
کیا اردو کسی ایک مذہب کی زبان ہے؟
1837 تک فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہلی سلاطین اور مغل حکمران اردو کے فروغ کو لے کر کتنے سنجیدہ تھے۔ گو کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ شروعات میں اس کی ترویج میں دکن کی سلطنتوں کا بڑا کردار ہے۔
دکنی سلطنتوں کا اردو کی پشت پر ہاتھ رکھنے کی سیاسی وجوہات بھی تھیں چونکہ اول الذکر فارسی کو سینے سے لگائے ہوئے تھے تو دکنیوں نے اردو کی سر براہی شروع کر دی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان کا اردو کو قومی زبان قرار دینے کو انتہا پسند ذہنیت نے انڈیا میں اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا قطع نظر اس حقیقت کے کہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے اور زبانوں کے ہند آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تقابل از راہ تفنن کیا ہے اور دونوں کا کوئی تقابل نہیں ہے۔ مثلاً دکنی سلطنتوں کے قدم سے اردو کو فائدہ پہنچا اور انڈیا میں پاکستان کی وجہ سے اس کے خلاف پروپیگنڈا سے نقصان ہوا۔
ایک ماہر لسانیات، سنیتی کمار چٹرجی نے کہا تھا کہ ’اگر مسلمان ہندوستان میں نہ آتے تب بھی جدید ہند آریائی زبانوں کی پیدائش ہو جاتی لیکن ان کے ادبی آغاز و ارتقا میں تاخیر ضرور ہو جاتی۔‘
انیسویں صدی میں اردو برصغیر میں فارسی، عربی اور سنسکرت کے خلاف ایک سیکولر لسانی انقلاب تھا۔ اس کی تدوین و ترویج انگریز سرکار کی سر براہی میں ہوئی اور ابتدا میں مذہبی طبقات کی طرف سے اسے کافی مزاحمت کا سامنا رہا۔ 1800 میں کلکتہ میں بننے والے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی سربراہی میں ہندوستانی زبانوں کا الگ شعبہ قائم کیا گیا جس میں اردو کو خصوصی توجہ دی گئی۔
اس کالج کا مقصد انڈیا میں ملازمت کرنے والے انگریز افسروں کو ہندوستانی کلچر نیز زبان سے آگاہ کرنا تھا۔
افسران کو اردو سکھانے کے لیے جو اس وقت ہندوستانی کہلاتی تھی، کالج میں بہت سی کتابوں کے اردو تراجم کیے گئے جو اردو کی ادبی ترقی اور ترویج میں اہم معاون ثابت ہوئے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اردو ایک ہند آریائی زبان ہے اور اس کے ارتقا کے متعلق سب سے ٹھوس نظریہ مسعود حسین خان کا مانا جاتا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق اردو دہلی و نواح دہلی کی بولیوں سے مل کر وجود میں آئی۔ دہلی کے نواح کی بولیاں جن سے خمیر سے اردو تیار ہوئی برج بھاشا، کھڑی بولی، ہریانوی، قنوجی اور میواتی ہیں۔
قدامت پسند عناصر کی طرف سے اردو کے ساتھ نفرت انگیزی کی سیاست اور عوام کے دلوں میں اس کے خلاف پروپیگنڈا کے باوجود لوگوں کے دلوں سے اردو کے ساتھ محبت کو دور نہیں کیا جا سکا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے بھی ایسی ذہنیت کی حوصلہ شکنی کی ہے جو اردو کو مذہبی پیرائے سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔