ہم اپنے پاکستانی ہونے کے 75 برس پورے کر چکے، پیارے وطن کا جشنِ آزادی شان سے منانا ایک ریت رواج ہے جو اس کی موجودہ معاشی و دگرگوں سیاسی صورت حال سے دور بہرحال منایا جائے گا۔
والدین نے بتایا کہ ہمارے بعد اگر کوئی تم پہ حق رکھتا ہے تو وہ یہ ملک ہے سو ہم اس مٹی کا حق ادا کر رہے ہیں، ملی نغموں نے سکھلایا ہے کہ دِیا جلائے رکھنا ہے، سو جیسے تیسے جلا رہے ہیں۔
لیکن جشن آزادی کے دیے جلانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جمہور ان دنوں بڑی مشکل کا شکار ہیں۔
انہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کون سی آزادی اور کس کی آزادی کا جشن منائیں؟ بچہ جمہورا تو مداری کے اشارے پہ 75 برس سے گھوم رہا ہے پھر کاہے کی آزادی؟ آزاد ملک میں قید جمہور کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے، آزاد وطن کے لاپتہ شہری اب ہزاروں میں پہنچ گئے ہیں، آزاد وطن میں ڈائیلاگ، سیاسی مخالفت اور تنقید پہ پہرہ ہے اور آزاد وطن میں حب الوطنی کے تقاضے فطری سے جبری بنا دیے گئے ہیں۔
پاکستان میں رہنے والے 22 کروڑ سے زیادہ افراد جہاں اور درجنوں مسائل کا سامنا ہے وہیں ہم نظریاتی اور فکری کشمکش میں بھی مبتلا ہیں۔
یہ کہنا کہ ان 22 کروڑ افراد کی کوئی فکری اور نظریاتی پہچان نہیں، غلط ہے۔ تاہم بڑی احتیاط کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے ہم اپنی فکری اور نظریاتی سمت کا تعین نہیں کر پا رہے، ہمارے قومی افکار الجھاؤ کا شکار ہیں اور یہ گرہیں اتنی گنجلک ہیں تیزی سے بدلتی دنیا میں انہیں سلجھانے میں چکر میں ہم اپنی قومی وحدت کے یہ دھاگے توڑ رہے ہیں۔
75 برس سے ایک بحث جاری ہے اور سرا ہے کہ ہاتھ نہیں آتا، بحث ہے کہ ہم افراد کا ہجوم ہیں یا قوم ہیں؟ ہم کروڑوں لوگوں کے اس ہنگامہ خیز ہجوم میں ہو یہ رہا ہے کہ ایک ٹولی کی طاقت دوسری ٹولی پہ چل جاتی ہے، ایک گروہ دوسرے پہ قابض ہے، ایک ٹولے کے پاس اسلحہ ہے تو دوسرے کے پاس ڈنڈا ہے۔
آج ایک گروپ طاقت میں ہے تو ایسی کی تیسی کر رہا ہے کل دوسرا گروپ مقتدر ہوجائے گا تو وہ پہلے والے کو چھوڑے گا نہیں۔ یہ فضائل تو ہو بہ ہو ہجوم کے سے ہیں لیکن چلیں دل کو خوش کرنے کو مان لیتے ہیں کہ ہم ایک اور نیک قوم ہیں۔
ہم قوم ہیں تو ہم کیسی قوم ہیں؟ یہ قوم کیا چاہتی ہے، یہ اپنی اجتماعی خواہش کا اظہار کیسے کرتی ہے؟ یہ قوم اپنے خواہشات سے بنے قوانین کا احترام کیسے کرتی ہے؟ دھوکا دینے والے کا یہ قوم حشر کیسے کرتی ہے؟ یہ قوم اپنی اجتماعی ترقی کے لیے اچھے اچھے کام کیسے کرتی ہے؟
یہ قوم اپنی اکائی یعنی ایک ایک فرد اس کی جان مال عزت کا دفاع کیسے کرتی ہے؟ ارو سب سے اہم یہ قوم اپنی قسمت کے فیصلے کیسے کرتی ہے؟
قائداعظم محمد علی جناح اپنی تقریروں میں انیسویں صدی کے فرانسیسی مفکر ارنسٹ رینان کے حوالے بہت دیا کرتے تھے۔ ارنسٹ کہتا تھا کہ افراد کی ایک ساتھ رہنے اور ایک ساتھ ترقی کرنے کی خواہش انہیں ایک قوم بناتی ہے۔ اب اس کی ذیلی بحث سے کتابیں کالی ہیں کہ دو قومی نظریے سے بنا پاکستان ایک قوم
رکھتا ہے یا بہت سے قومیتوں کا مجموعہ ہے۔
ہم ایک قوم ہیں یا نہیں یہ تحریر ایسی بحث کو چھیڑنے کی متحمل نہیں لیکن ہم اس مختصر تحریر میں یہ کہہ لینے کی جرات کر سکتے ہیں کہ بطور پاکستانی ہم ایک ساتھ ڈوب رہے ہیں، ہماری کرنسی کی بے قدری، ہماری ترقی، ہماری پستی، ہماری عزت یا ہماری بے عزتی ہوتی ہے تو ایک ساتھ ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس گردش ایام سے نکلنے کی جدوجہد بھی ہمیں ایک ساتھ کرنی ہوگی اور کل کو اگر ہم اس دلدل سے باہر نکلتے ہیں تو ایک ساتھ ہی نکلیں گے۔
اب مسئلے کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان جن گمبھیر حالات میں گھرا ہے اس سے نکلنے کے لیے کیا ہم جمہور، ہم عوام اور ہم پاکستانی قوم کی رائے کوئی اہمیت بھی رکھتی ہے کہ نہیں؟ یا ہم اور ہمارے منتخب کردہ نمائندے فرشتوں کے لکھے پہ یوں ہی بدنام ہوئے جاتے ہیں۔
پاکستان کی زرعی، معاشی یا تعلیمی پالیسی کیا ہوگی کیا یہ فیصلہ کرنے کی آزادی ہم جمہور کے نمائندوں کو ملی؟ پاکستان میں مذہبی رائے کی آزادی کتنی ہوگی کیا اس فیصلے میں ہم عوام بھی شامل ہیں کہ نہیں؟
ملک میں آرمی ایکٹ میں کیا کیا فیصلے جلد بازی میں کیے گئے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی ضرورت کیوں اور کیسے پیش آئی، کیا اس آزاد اور زندہ قوم کی کوئی رائے بھی شامل ہے اس میں کہ نہیں؟
جو کچھ گذشتہ سوا برس میں ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے اس وقت لاکھوں پاکستانیوں کے دل جل کر کباب ہیں، حل صرف شفاف انتخابات ہیں جس میں تمام جماعتوں بشمول پی ٹی آئی کو مکمل آزادی سے عوام کے پاس جانے دیا جائے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کرانے کی پخ لگانے سے اگلے انتخابات مزیدکھٹائی میں پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہم عوام سے پوچھیں ہمیں تو الیکشن یا نو الیکشن دونوں صورتوں میں اپنے حق رائے دہی کی صرف دہی جمتی نظر آرہی ہے، ہمیں تو اگلے انتخابات میں ایک بار پھر من مرضی کے لوگوں پہ مشتمل ہائبرڈ نظام کو دوام ملتا نظر آرہا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔