کل عورتوں کا عالمی دن تھا۔ میرے طالب علموں، دوستوں، احباب نے کتنے ہی پیغامات بھیجے جن میں ہر ایک کا مقصد یہ ہی تھا کہ میں ایک مضبوط عورت ہوں اور میری عظمت کو سلام وغیرہ۔
ہمارے ایک دوست ہیں جو ڈرامے اور فلمیں وغیرہ ڈائریکٹ کرتے ہیں۔ جب بھی ان سے ملنا ہوتا ہے وہ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ آپ سے مل کے لگتا ہے میں کسی پرانے زمانے کی عورت سے مل رہا ہوں۔ جیسے میری نانی تھیں یا دادی، یا جیسے ہماری خالائیں ہوتی تھیں۔
ایک اور ڈائریکٹر دوست ہیں۔ ان کا جب کسی سے جھگڑا ہوتا ہے وہ مجھے فون کرتے ہیں اور آخر میں یہ ہی کہتے ہیں کہ سارا غصہ ختم ہو گیا اور سمجھ آگیا کہ اب کرنا کیا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک خودکش قسم کا فیصلہ کرتے ہیں مگر یہ ہی فیصلہ ان کا اگلا پراجیکٹ کامیاب کرانے کا باعث بنتا ہے۔
ایک اور دوست ہیں، انہیں جب کسی بات پہ شک و شبہہ ہوتا ہے مجھے دیوان حافظ سے فال نکالنے کا کہتے ہیں۔ اکثر فال انہیں راس آجاتی ہے۔
ایک اداکار دوست ہیں ان کا دل جب بھی کسی دیسی یا ایشیائی کھانے کے لیے مچلتا ہے، مجھے فون کرتے ہیں اور کھانے کے بعد ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ یہ کھانا نہیں، ایک کیفیت تھی جو ذائقہ طاری کر دیتی ہے، کھانا تو ہوٹل میں بھی ملتا ہے مگر اس میں کوئی خاص بات تھی۔
ایک اور دوست ہیں جو جب کبھی ملتے ہیں کرید کرید کر پوچھتے ہیں کہ آج کل کیا کر رہی ہوں اور کتنا کما لیتی ہوں؟ گزارا ہو جاتا ہے یا نہیں۔ کلمہ شکر ادا کرنے پہ مجھے مشکوک نظروں سے گھورتے رہتے ہیں۔
ایک اور دوست ہیں جو دعوت پہ آتے ہیں، کنکھیوں سے سب کچھ دیکھتے ہیں میری باتیں سنتے ہیں، میرے احباب کے نمبر لیتے ہیں اور اکثر کھانے میں مین میخ ہی نکالتے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد ان ہی لوگوں کو اپنے گھر بلاتے ہیں اور پتا چلتا ہے کہ مینیو سے گفتگو تک چربہ تھا۔
میرے ایک اور دوست ہیں جو اکثر مجھ سے اہم لوگوں کو فون کرا کے اپنے کاموں میں آسانیاں پیدا کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی ان کے کام ہو جاتے ہیں اور کبھی نہیں بھی ہوتے ۔ یہ صاحب اپنی شام کی محفلوں میں برملا کہتے ہیں کہ ان عورتوں کے بڑے تعلقات ہوتے ہیں مگر ہمارے کام کیوں آئیں گی ہنہہ!
میرے ایک بہنوئی ہیں جو میری ہر دعوت پہ ایک مختلف قسم کی ’انٹری‘ دیتے ہیں۔ کبھی مہمانوں کے آنے سے بہت پہلے آجاتے ہیں اور بھوک بھوک کا شور مچا کے سارا کھانا اوپر اوپر سے چگ کے بے رونق کر دیتے ہیں۔ یا اتنی دیر سے آتے ہیں کہ جملہ مہمان بھوک سے دم دینے والے ہوتے ہیں، کھانا کھاتے ہی برتن اٹھانے کی فرصت بھی نہیں دیتے اور قہوہ پی کے جمائیاں خراٹے لیتے رخصتی کو پر تولتے ہیں۔
ایک صاحب میرے ساتھ اکثر سٹیج شیئر کرتے ہیں۔ مائیک ان کے پاس آتا ہے تو کہتے ہیں ہم بھی یہ ، کالم نگار، ناولسٹ، ڈرامہ نگار اور استاد بن سکتے تھے مگر ہم نے ایک ہی فیلڈ میں رہنے کو ترجیح دی۔ باقی گفتگو میں اردو ڈرامہ لکھنے والیوں کو رگیدتے ہیں اور اپنے فن کے محاسن کو اجاگر کرتے کرتے سارا وقت لے جاتے ہیں۔
ایک صاحب، کسی فیسٹیول کی انتظامیہ میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں یہ کل کی بچی، اس کو کیوں بلا رہے ہیں؟ کسی ٹی وی شو میں سامنا ہو جائے تو میری ہر بات پہ کہتے ہیں ڈرامے تو پی ٹی وی کے ہوتے تھے اور آپ تو ساس بہو کی کہانیاں لکھتی ہیں۔ جب ان سے کہتی ہوں کہ آپ نے میرا وہ، وہ ڈرامہ دیکھا تو یا تو سننے کا آلہ درست کرنے لگتے ہیں یا کہتے ہیں جی میں ڈرامے نہیں دیکھتا۔
ایک صاحب کسی مشترکہ دوست کے ساتھ بن بلائے آجاتے ہیں اور کوئی کونا وونا ڈھونڈ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ تکلف میں پوچھ لوں تو رازداری سے کہتے ہیں آپ کی بھابھی تو بیمار رہتی ہیں ہمارے نصیب میں کہاں ایسے کھانے؟
ایک فین ہیں جو کسی نہ کسی فیسٹیول پہ گھیر لیتے ہیں ’عن قریب‘ کھڑے ہو کے تصویریں لیتے ہیں، چائے پلانے کے لیے مچل جاتے ہیں اور انکار کرنے پہ سخت دلبرداشتہ ہو کے دکھی پوسٹس لگاتے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ سخت مغرور خاتون ہیں۔
ایک عزیز کے لیے اٹلی سے چاکلیٹ لائی تو انہوں نے ڈبہ چٹکی سے پکڑ کے دور رکھ دیا، مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا اور پوچھا، ’اکیلی گئی تھیں؟ یہ سادہ چاکلیٹس ہیں؟ ہمارے ایک دوست کی دوست تو ایسی چاکلیٹ لائی تھیں جن میں کچھ خرافات بھری ہوئی تھیں جیسے کوفتوں میں ہرا مصالحہ بھرا ہوتا ہے، اسی طرح۔‘
ہمارے ایک پروڈیوسر ہیں، جن سے جب معاوضہ بڑھانے کا کہو تو کہتے ہیں کیا آپ سنگل مدر ہیں؟ نہیں تو آپ کو کس کی فیسیں دینا ہیں جو پیسے بڑھا رہی ہیں، چل کریں۔
ایک اور پروڈیوسر ہیں جو فون کرتے ہی کہتے ہیں، بھائی کے لیے کیا کم کر سکتی ہیں؟ جب میں کہتی ہوں کہ بھائی بہن کے لیے کیا بڑھا سکتا ہے تو خفا سے ہو جاتے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں، بہت لالچی عورت ہے، اللہ معاف کرے کھال اتار لیتی ہے، کرے گی کیا اتنے پیسے کا ؟ آخر تو سب کو ایک دن مرنا ہی ہے۔ اپنی موت بھول جاتے ہیں ایسے لوگ دنیا کی ہوس میں۔
ایک طالب علم ہے، جسے رات کے تین بجے خیال آتا ہے کہ میڈم سے پوچھا جائے کہ آپ کیسی ہیں، اب تک کیوں جاگ رہی ہیں، پیپر لیں گی یا اسائنمنٹ دیں گی؟ میم، دادی بیمار ہیں، ڈیڈ لائن آگے ہو سکتی ہے؟ میم، مجھے دھیان سے نمبر دیجیے گا میں نے آپ کے سارے ڈرامے دیکھے ہیں۔
ایک ڈائریکٹر ہیں جو میرے لکھے اچھے اچھے مگر ڈائریکشن کے لحاظ سے مشکل سین نہیں بناتے۔ مجھے فون کر کے کہتے نہیں آپ نے قسط چھوٹی لکھی تھی اتنے سین مزید لکھ دیں اور وہ بس گفتگو کے ہوں۔ دو لوگ بیٹھے کوئی بات کر رہے ہیں۔
ریٹنگز کم آتی ہے تو کہتے ہیں خاتون رائٹر ہیں، ان کا ’ایکسپوئیر‘ نہیں ہے زیادہ، فلاں صاحب کا سکرپٹ ہوتا تو مزہ آجاتا۔ وہ کھل کے لکھتے ہیں۔
ایک بزرگ قاری ہیں جو میرے کالمز میں سے باریک باریک باتیں نکال کے مجھے سوشل میڈیا پہ میسج کرتے ہیں کہ آپ نے لکھا آپ یوں ہیں، آپ ووں ہیں، فلاں کو یہ کیوں لکھا، وہ تو ووں ہے۔ آپ ایسا نہ لکھا کریں مجھے اچھا نہیں لگتا۔ آپ کی عمر کی میری ایک بیٹی بھی ہے۔
بہن کے نندوئی فون کرتے ہیں اور کہتے ہیں میں سوچ رہا ہوں کہ ڈرامہ لکھوں میرے پاس ایک کہانی ہے، یہ آپ لوگ کیا لکھتے رہتے ہیں گھریلو سیاست۔ میرے پاس ایک کمال کہانی ہے ایک لڑکا امیر ہونا چاہتا تھا اس نے بڑی محنت کی اور امریکہ میں ٹیکسی چلا کے پنڈی میں مکان بنا لیا پھر اس لڑکی سے شادی کر لی جس نے اس کی غربت کی وجہ سے اس سے شادی نہیں کی تھی۔ اس آئیڈیے کے گھسے پٹے ہونے پہ بات کی تو خفا ہو گئے کہ ہیں نا عورت، عدم تحفظ کی ماری ہوئی کوئی مرد ہوتا تو مجھے سیدھا سیٹ پہ پہنچاتا۔
ایک مرحوم عزیز کا خیال تھا کہ لکھنے لکھانے کے پیسے کون دیتا ہے؟ دھندا کچھ اور ہے یہ ساری کہانی تو بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے ہے۔ ہم نے بھی شاعر ادیب دیکھے ہیں۔ ساغر صدیقی، کیسے مرا تھا اور منٹو کو تو شراب بھی نہیں ملتی تھی۔
ایک فاضل کالم نگار نے بین الاقوامی امور پہ لکھے گئے میرے ایک کالم کے چھپنے کے بعد مجھ سے تفصیل سے پوچھا کہ مجھے یہ سب کیسے پتا چلا؟ بہت سمجھایا کہ سر مجاہد منصوری کی سب سے پسندیدہ شاگرد تھی اور جیو پالیٹکس پہ خاصا مطالعہ ہے میرا۔ مگر انہیں آج بھی یقین ہے کہ وہ کالم میں نے کسی سے لکھوایا تھا۔
ایک صاحب، ہر اس پوڈ کاسٹ سے مجھے غائب کرا دیتے ہیں جس میں سیاست پہ بات کرنا ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے عورتوں کے ڈرامے لکھنے والی کو سیاست کا کیا پتا؟
دوسرے صاحب ادب کے تذکرے میں میرا نام لکھنے پہ بہت ناراض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کہاں کہ قرت العین حیدر آگئیں ؟ یہ تو گندے گندے ڈرامے لکھتی ہیں۔
ایک فلم میکر اکثر کہتے ہیں کہ کوئی سکرپٹ رائٹر ہو تو بتائیے گا۔ ایک بار اپنا نام لے دیا تو گھبرا کے بولے، فلم رائٹر، آپ تو ناول لکھتی ہیں آپ لوگ بہت فلاسفی بولتے ہیں دیکھنے والا پریشان ہو جاتا ہے یہ اینٹر ٹینمنٹ ہے۔
میرا ایک ڈرائیور ہے، جسے ہر وقت گانے سننے کی عادت ہے۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد کہنا پڑتا ہے کہ پلیز یہ موسیقی بند کر دیجیے۔ اس کے علاوہ اسے سڑک پہ گاڑی چلانے والی خواتین پہ بڑ بڑانے کی عادت بھی ہے، او مائی، معاف کر دے، ڈرائیور رکھ لے، سڑک پہ گاڑی لے آتی ہیں بچے ساتھ بٹھائے ہیں، مت مار دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسے میرے سب دوستوں رشتے داروں سے شکایت ہے کہ کھانا اور چائے اچھا نہیں دیتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے ایک بھائی بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں جو آدھا حصہ ملا وہ بھی نہیں ملنا چاہیے تھا۔ جب بھی ملتے ہیں اس حصے میں سے کچھ مانگنے، کسی کاغذ پہ سائین کرانے یا مختار نامے کے لیے آتے ہیں۔
میرا ایک بیٹا بھی ہے جو اپنے کمرے سے فون کر کے پوچھتا ہے کہ ماما میری وہ والی شرٹ نکلوا دینا، کھانے میں کیا ہے؟ میں آج گھر پہ کھانا نہیں کھاؤں گا۔ آپ میرے دوستوں کے سر پہ ہاتھ نہ پھیرا کریں انہیں بہت جھکنا پڑتا ہے۔ ماما آپ مڈ لائف کرائسس سے گزر رہی ہیں اس لیے بد مزاج ہو گئی ہیں۔
میرا ایک باپ بھی تھا جو مجھے بہت سی اچھی عادات سکھا کے اس عمر میں فوت ہو گیا جب مجھے اس کی بہت ضرورت تھی۔
میری ہی نہیں ہر عورت کی زندگی میں ایسے ہی بہت سے مرد ہوتے ہیں۔ اکثر عورتیں ان کو نہ ’گولڈ ڈگر‘ کہتی ہیں نہ ’دو نمبر‘ نہ ہی کوئی اور خطاب دیتی ہیں۔ یہ ہمارے ساتھ اسی معاشرے میں رہ رہے ہیں اور اپنے دماغ، تربیت اور حالات کے مطابق بات کرتے ہیں۔
مضبوط عورت شاید وہی ہوتی ہے جو ان سب اور اس کے علاوہ بھی بہت سے رویوں کو استقامت سے برداشت کرتی ہے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے گھنے سایہ دار درخت کی طرح کھڑی رہتی ہے۔
ایسے سایہ دار درختوں پہ پڑنے والی دھوپ بہت کڑی ہوتی ہے مگر یہ ہی دھوپ زندگی بخشتی ہے اور اسی دھوپ کو سہنے کا نام زندگی ہے۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ صحراؤں میں درخت اتنے چھتنار نہیں ہوتے جتنے استوائی جنگلوں میں ہو جاتے ہیں۔ دھوپ کے ساتھ بادل کی چھاؤں اور گاہے برسات بھی ہوتی رہے تو کیا کہنے ؟ یہ چھتنار درخت بھی تو آخر انسان ہی ہوتے ہیں۔
نوٹ: بتائے گئے تمام دوست اور دیگر کردار فرضی ہیں، کالم نگار ایسے بے ہودہ لوگوں کو بالکل نہیں جانتی۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔