پاکستان کی سول نیوکلیئر انڈسٹری توانائی کی سکیورٹی، سماجی و معاشی ترقی کی ضروریات اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی ڈیز) کے تحت مسلسل توسیع اور بہتری کے عمل سے گزر رہی ہے۔
اگرچہ یہ اگلی نسل کے فشن اور فیوژن ری ایکٹرز مقامی طور پر تیار نہیں کر رہا لیکن یہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی نگرانی میں چین کی مدد سے جوہری بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دے رہا ہے۔
موجودہ دور میں جوہری توانائی صرف ایک حل نہیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں امید کی کرن ہے۔
کوپ 29 یعنی 2024 میں باکو، آذربائیجان میں ہونے والی اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس میں اس کی منظوری اور 31 ممالک کی جانب سے 2050 تک عالمی جوہری توانائی کی گنجائش کو تین گنا بڑھانے کے اعلامیے کی توثیق اس کی صلاحیت کا واضح ثبوت ہیں۔
یہ صلاحیت امید دلانے والی ہونی چاہیے کیوں کہ کہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کی جوہری توانائی کی پیداوار کو تین گنا بڑھانا، اگرچہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، لیکن پھر بھی ہمارے دائرہٴ اختیار میں ہے۔
پیچیدگیوں کے باوجود تکنیکی طور پر ترقی یافتہ اور سائنسی لحاظ سے پسماندہ ممالک نے صنعتی ترقی اور معاشی خوش حالی کے لیے نیوکلیئر توانائی کی ٹیکنالوجی کو اپنایا ہے۔
ابھرتی ہوئی ایشیائی معیشتیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، ایٹمی ری ایکٹر بنانے والے ممالک سے مواد خریدنے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے رجوع کر رہی ہیں تاکہ ایٹمی توانائی کو پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
اقوام متحدہ بھی کم ترقی یافتہ ممالک کی خوش حالی کے لیے نیوکلیئر پاور انڈسٹری کی ترقی کی حوصلہ افزائی اور معاونت کر رہا ہے۔
29 اکتوبر 2007 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 62ویں باقاعدہ اجلاس کے دوران ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں رکن ممالک سے اپیل کی گئی کہ وہ آئی اے ای اے کے اس لازمی کردار کی حمایت جاری رکھیں، جو کہ ’ایٹمی توانائی کی پُرامن مقاصد کے لیے ترقی اور عملی اطلاق کی حوصلہ افزائی اور مدد‘ فراہم کرتا ہے۔
ایٹمی توانائی پاکستان کے توانائی منصوبے کا ایک لازمی جزو اور بنیادی ستون ہے۔
ایٹمی طاقت کے حامل ملک کے طور پر، پاکستان کے پاس ایٹمی بجلی گھروں کی سکیورٹی اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے درکار انسانی وسائل اور مہارت موجود ہے۔ نیوکلیئر سپلائر ممالک کی معاونت سے نئے ایٹمی بجلی گھروں کی مجوزہ تعمیر پاکستان کے توانائی کے تحفظ کے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہے۔
21ویں صدی کے آغاز سے ہی حکومت نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی جانب سے نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور مواد کی عدم فراہمی کے باوجود نیوکلیئر توانائی کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
2005 میں، حکومت نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کو 2030 تک 8800 میگاواٹ اٹیمی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا بجلی گھر قائم کرنے کا ہدف سونپا۔
2014 میں حکومت نے اعلان کیا کہ نیوکلیئر انرجی وژن 2050 کے تحت، جو ایک سرکاری ترقیاتی منصوبہ ہے، ایٹمی توانائی سے 40000 میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جائے گی تاہم ایٹمی توانائی کے اس وژن کو حقیقت بنانے میں کئی رکاوٹیں اور مشکلات درپیش ہیں۔ ان میں سب سے بڑی رکاوٹ این ایس جی کی پاکستان کے خلاف امتیازی پالیسی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں چھ ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں۔ دو کراچی میں اور چار پنجاب میں میانوالی کے قریب چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ پر، جو اسلام آباد سے 250 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
یہ پاور پلانٹس قومی گرڈ کو 3530 میگاواٹ سے زائد (ملک کی مجموعی بجلی کا 17 فیصد) فراہم کر رہے ہیں جو ایٹمی توانائی کے شعبے میں پاکستان کی پیش رفت کا واضح ثبوت ہے۔
چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ فائیو (سی فائیو) کی حالیہ تعمیر کا آغاز، جو چین کی 3.7 ارب ڈالر کی مالی معاونت سے ہو رہا ہے، ایک اور سنگ میل ہے، جس سے 2030 تک قومی گرڈ میں 1200 میگاواٹ صاف توانائی شامل کی جائے گی۔
ایٹمی توانائی میں ہونے والی یہ پیش رفت نہ صرف پاکستان کے توانائی کے نظام کو مضبوط کر رہی ہے بلکہ درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرکے ملک کے مستقبل کا ایک امید افزا منظرنامہ بھی پیش کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای) کے بانی ارکان میں شامل ہونے کے ناطے، پاکستان اس ادارے کے ساتھ قریبی تعاون کرتا ہے، جس نے ملک کی ایٹمی توانائی کی پیداوار، صنعتی ترقی، صحت عامہ اور زرعی شعبے میں پیش رفت میں معاونت فراہم کی ہے۔
گذشتہ ماہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی نے پاکستان کا دورہ کیا تاکہ آئی اے ای اے اور پاکستان کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دیا جا سکے۔
فوکوشیما (جاپان) نیوکلیئر ری ایکٹر حادثہ، جو 11 مارچ 2011 کو پیش آیا، نے مکمل طور پر نیوکلیئر توانائی کی ساکھ کو متاثر نہیں کیا، لیکن اس نے دنیا کو نیوکلیئر پاور پلانٹ حادثات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں ضرور متنبہ کر دیا۔
اسی لیے، پاکستان اپنی سول نیوکلیئر تنصیبات، خاص طور پر نیوکلیئر پاور پلانٹس کی سکیورٹی، حفاظت اور حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن احتیاط برت رہا ہے۔
13 فروری کو چشمہ میں ایک ریڈیوایکٹیو ویسٹ انسینیریٹر کے افتتاح کے بعد، آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی نے کہا کہ پاکستان کا نیوکلیئر پاور پروگرام دنیا کے سب سے کامیاب پروگراموں میں سے ایک ہے۔
پاکستان کی نیوکلیئر توانائی کے حصول کی جدوجہد ایک ایسے ممکنہ مستقبل کی راہ ہموار کر رہی ہے جہاں ملک کو اپنی ضروری توانائی دستیاب ہو، جس کے ذریعے وہ اعلیٰ معیارِ زندگی، بہتر صحت، صاف ماحول اور ایک پائیدار معیشت حاصل کر سکے۔
ڈاکٹر ظفر نواز جسپال اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار اور قائداعظم یونیورسٹی کے سکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں پروفیسر ہیں۔
ایکس @zafar_jaspal
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔