نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ جن خواتین نے 60 سال کی عمر تک اپنا وزن زیادہ مستحکم رکھا ان میں ’غیر معمولی لمبی عمر‘ پانے اور 100 سال تک زندہ رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کا وزن تبدیل نہیں ہوا ان میں 90، 95 اور 100 سال کی عمر تک پہنچنے کا امکان ان افراد سے 1.2 گنا سے دو گنا کے درمیان تک زیادہ تھا جنہوں نے اپنے جسم کا پانچ فیصد یا اس سے زیادہ وزن کم کیا۔
یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علاء الدین شاداب نے کہا کہ اس تحقیق کے نتائج بڑی عمر کی خواتین میں لمبی عمر پانے کے لیے ’مستحکم وزن‘ کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر زیادہ عمر کی خواتین وزن کم کرنے کی کوشش نہ کرنے کے باوجود وزن میں کمی محسوس کرتی ہیں تو یہ ان کی خراب صحت کی انتباہی علامت اور لمبی عمر میں کمی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
مطالعے کے لیے محققین نے ایک امریکی تحقیق میں شامل 54 ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ اس تحقیق میں سن یاس کی عمر کے بعد کی خواتین میں دائمی بیماریوں کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زیادہ وزن یا موٹاپے کے شکار افرد میں ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل کی بیماری، فالج اور کینسر کی کچھ اقسام کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
تاہم تحقیق میں بتایا گیا کہ 56 فیصد خواتین 90 سال یا اس سے زیادہ عمر تک زندہ رہیں۔ لیکن تین سال کی مدت میں وزن کو مستحکم رکھنے کے مقابلے میں ان کے وزن کا پانچ فیصد کم ہونا ان کی غیر معمولی لمبی عمر میں کمی کا باعث بنا۔
جب انہوں نے ان گروپوں کو الگ الگ دیکھا تو نتائج کا پیٹرن عام وزن، زیادہ وزن اور موٹاپے کی شکار خواتین کے درمیان ایک جیسا تھا۔
پروفیسر شاداب نے مزید کہا کہ امریکہ میں بڑی عمر کی خواتین کا زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہونا عام بات ہے۔
برطانیہ میں ایک صحت مند شخص کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) سکور 18.5 اور 24.9 کے درمیان ہے لیکن 65 سے 74 سال کی عمر کی خاتون کے لیے اوسط سکور 28.2 رکھا گیا ہے۔
این ایچ ایس کے اعداد و شمار کے مطابق اس حد میں تمام بالغوں میں سے تین چوتھائی کا زیادہ وزن ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ دونوں ممالک میں ایک ہی عمر کی کیٹیگری کے مردوں کا زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہونا بھی عام ہے۔
یہ تحقیق جرنل آف جیرونٹولوجی میڈیکل سائنس میں شائع ہوئی ہے۔
© The Independent