وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز چند روز قبل علاج کی غرض سے جینیوا گئیں، جس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ خبریں سامنے آئیں کہ انہیں گلے کا کینسر ہے۔
تاہم لندن میں مقیم مریم نواز نے بدھ کی شام اپنی جماعت کے کارکنوں سے گفتگو میں کینسر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ’پیرا تھائیرائیڈ‘ غدودوں کا مرض لاحق ہے، جس کے علاج کے لیے وہ بیرون ملک گئیں۔
مریم نواز کا کہنا تھا: ’مجھے پیرا تھائیرائیڈ کا مسئلہ ہے، گذشتہ سال جنوری میں سوئٹزرلینڈ میں میری سرجری ہوئی تھی اور مجھے یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ پاکستان میں کوئی ہسپتال نہیں ہے، جہاں میں یہ سرجری کروا سکتی۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ صحت کے مسائل کو وجہ بنا کر ہمددری حاصل نہیں کرنا چاہتیں۔
بقول مریم نواز: ’میرا جتنا بھی علاج ہوا ہے، پاکستان ہی میں ہوا ہے، لیکن یہ پیرا تھائیرائیڈ ایک ایسی بیماری ہے، جس کا علاج دنیا میں صرف دو ملکوں میں ہوتا ہے، انگلینڈ میں بھی اس کا علاج نہیں ہے۔ یا تو سوئٹزرلینڈ میں ہے یا امریکہ میں ہے۔‘
کیا پاکستان میں پیرا تھائیرائیڈ کی بیماری کا علاج ممکن نہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے لاہور میں سروسز ہسپتال کے انڈوکرائنالوجسٹ ڈاکٹر شعیب حیدر سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس کا علاج ممکن ہے۔ ’ہم خود علاج کرتے ہیں، البتہ اس کے طریقہ کار میں فرق ہو سکتا ہے کہ ہائی فائی لیول کا علاج شاید سرکاری ہسپتالوں میں نہ ہو لیکن نجی سیٹ اپ میں ہر طرح کا علاج ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہماری انڈوکرائنالوجی سے جڑی جتنی بھی ادویات ہیں، ان میں سے زیادہ تر دبئی سے آتی ہیں اور وہاں سے سفر ایسے ہی ہے جیسے ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے ہیں تو وہاں سے ادویات یہاں لائی جاتی ہیں۔‘
بقول ڈاکٹر شجاعت حیدر: ’جو استطاعت رکھتا ہے وہ باہر جا کر علاج کروا لیتا ہے لیکن ہم پاکستان میں اس کا پورا علاج کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر پیرا تھائیرائیڈ کا کینسر بھی ہو تو اس کا بھی علاج یہاں ہم کرتے ہیں، ہاں سرکاری ہسپتال میں شاید وسائل کم ہوں لیکن نجی ہسپتالوں میں سب کچھ 100 فیصد میسر ہے۔‘
پیرا تھائیرائیڈ ہے کیا؟
ڈاکٹر شعیب حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پیرا تھائیرائیڈ غدود کی بیماری ہے۔ چار چھوٹے چھوٹے خاص قسم کے غدود ہوتے ہیں اور یہ گلے کے اندر تھائیرائیڈ یا جسے گلھڑ کہتے ہیں، اس کے بالکل پیچھے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیرا تھائیرائیڈ جسم میں دو کیمیکلز کو کنٹرول کرتا ہے، جس میں کیلشیم اور فاسفیٹ شامل ہیں۔ ان دونوں کیمیکلز کو جسم میں ایک خاص مقدار کے اندر برقرار رکھنا ہوتا ہے۔
’اگر پیرا تھائیرائیڈ زیادہ کام کرے یا کم کام کرے تو دونوں صورتوں میں جسم کے اندر موجود کیلشیم اور فاسفیٹ متاثر ہو جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر شعیب حیدر کے مطابق کیلشیم اور فاسفیٹ جسم میں بہت سے کام کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ’اگر پیرا تھائیرائیڈ کسی بھی وجہ سے خراب ہو گیا ہو تو جسم میں کیلشیم اور فاسفیٹ خراب ہو گا، جس کی وجہ سے جسم میں بہت سے افعال متاثر ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں ہڈیوں کے لیے کیلشیم چاہیے، اس لیے اگر کیلشیم خراب ہو گا تو اس کا اثر ہڈیوں پر پڑے گا، کیلشیم پٹھوں کی سرگرمیوں کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے، آسان لفظوں میں ہم جو ٹھنڈا گرم محسوس کرتے ہیں اس کے لیے جو تاریں جاتی ہیں اور ان تاروں سے جس پیغام نے گزرنا ہے یا کرنٹ نے گزرنا ہے، اس عمل میں بھی کیلشیم اپنا کردار ادا کرتا ہے۔‘
ڈاکتر شعیب کہتے ہیں کہ ’جب کیلشیم خراب ہو گا تو ہڈیاں کمزور ہو جائیں گی، خود بخود ٹوٹ بھی سکتی ہیں اور یہ صورت حال اس بات پر منحصر ہے کہ کیلشیم زیادہ ہے یا کم ہے۔
’اسی طرح اگر پیرا تھائیرائیڈ کم کام کر رہا ہے تو مریضوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھوں، پیروں اور چہرے پر سوئیاں چبھ رہی ہیں یا کیڑیاں سی چل رہی ہیں، ہاتھ پاؤں مڑنا شروع ہو جاتے ہیں، منہ کے دہانے پر مریض کو ایسے محسوس ہوتا ہے، جیسے لرزش (Twitching) ہو رہی ہے یا چھوٹے چھوٹے جھٹکے لگ رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح اگر کیلشیم بڑھ جائے تو وہ جسم میں کہیں بھی جا کر جمع ہو جاتا ہے اور جس عضو میں جمع ہو گا، اس کا فنکشن خراب کر دے گا۔
پیرا تھائیرائیڈ خراب کیوں ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شعیب نے بتایا کہ پیرا تھائیرائیڈ اس وقت خراب ہوتا ہے جب ہم کسی بھی وجہ سے تھائیرائیڈ کو نقصان پہنچا دیں۔ ’اگر گلے کا کوئی آپریشن ہو رہا ہے اور اس میں غلطی سے پیرا تھائیرائیڈ کو چھیڑ دیا گیا ہو یا اسے نقصان پہنچا ہو تو جسم میں کیلشیم، فاسفیٹ اور باقی کے اعضا متاثر ہو جائیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح ’باہر سے گردن کو ریڈی ایشنز یا شعاعیں لگیں تو وہ بھی پیرا تھائیرائیڈ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’تیسرا جسم کے اندر خود ہی کوئی ایسی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں جیسے شوگر یا بلڈ پریشر ہوتا ہے، ویسے ہی جسم میں کچھ اور چیزیں بننا شروع ہو جاتی ہیں، جو پیرا تھائیرائیڈ کو نقصان پہنچا دیتی ہیں یا اسے متحرک کر دیتی ہیں اور یہ ضرورت سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’خاندانوں میں کچھ موروثی بیماریاں بھی چل رہی ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے بھی پیرا تھائیرائیڈ زیادہ کام کرنے لگتا ہے یا بالکل کم کام کرنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور آٹو امیون بیماری، جس میں جسم خود اپنے خلاف کام شروع کر دے، جسم کو توڑنا شروع کر دیتی ہے، جیسے گنٹھیا ایک آٹو امیون بیماری ہے یا خواتین میں سسٹیمیٹک لیوپس اریتھمیٹوسس (ایس ایل ای) ایک بیماری ہوتی ہے، جس میں جلد، آنکھیں، جوڑ اور بال وغیرہ خراب ہو رہے ہوتے ہیں، اسی میں پیرا تھائیرائیڈ بھی خراب ہو جاتا ہے۔
پیرا تھائیرائیڈ کی کتنی بیماریاں ہیں؟
ڈاکٹر شعیب نے بتایا کہ پیرا تھائیرائیڈ بیماری کی دو ہی اقسام ہیں، ایک یا تو یہ کام زیادہ کر رہا ہو گا یا دوسرا یہ کام کم کر رہا ہو گا۔ دونوں کی الگ علامتیں سامنے آئیں گی، اس لیے ان کی وجوہات بھی اسی حساب سے الگ الگ ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا: ’تیسرا یہ ملیگننٹ ہو سکتا ہے، جس میں کینسر ہو سکتا ہے۔ چونکہ یہ ایک غدود ہے، اس لیے غدود کا کینسر بھی ہو سکتا ہے، جسے ہم پیرا تھائیرائیڈ کارسینوما یا پیرا تھائیرائیڈ کا ٹیومر کہتے ہیں لیکن یہ بہت کم ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر اس کا فنکشنل ڈیفیکٹ زیادہ ہوتا ہے۔ سٹرکچرل ڈیفیکٹ کو ہم کینسر کہتے ہیں اور وہ بہت کم ہوتا ہے۔
’صرف ایک فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جن میں کارسینوما ہوتا ہے اور اس سے پیرا تھائیرائیڈ کے کام کرنے پر کوئی اثر نہیں ہوتا البتہ اس کے پھیلنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ 99 فیصد میں کینسر نہیں ہوتا بلکہ اس کا کام متاثر ہوتا ہے کہ یا تو وہ زیادہ کام کرنے لگتا ہے یا کم کام کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کا علاج بھی دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک تو ہم اس وجہ کا علاج کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پیرا تھائیرائیڈ خراب ہوا ہے۔ دوسرا پیرا تھائیرائیڈ نے جس جس عضو کو نقصان پہنچایا ہے، اس عضو کو جا کر ٹھیک کریں۔