گھر میں انٹرنیٹ سست ہو تو بچے گیم ہارنے کاغصہ والدین پر نکالتے ہیں۔ والدین غصہ کریں تو بچے ضدی ہوجاتے ہیں اور منفی راستے اختیار کرتے ہیں۔ یہی المیہ ریاست کے سست اور ناکارہ انتظامی ڈھانچے کا بھی ہے۔ جہاں نظام سست اور عوام پریشان ہے وہاں ریاست طاقت اور غصے سے اسے دبانا چاہتی ہے۔
سمجھنا چاہئے کہ ہم نے عوام اور بچوں کے ہیجان، اشتعال اور شدت کو راستہ کیسے دینا ہے۔ راستہ دیئے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ ٹکرائیں گے تو اشتعال بڑھے گا اور اشتعال سے بدامنی، فرقہ واریت اور تقسیم جنم لے گی۔ بچہ ہوم ورک نہ کرے تو ٹیچر ڈانٹتے کی بجائے اگر اس سے مسئلہ پوچھا لیں تو شدت و ہیجان کم ہوگا۔ ممکن ہے اس کے والدین توجہ نہ دیتے ہوں یا لڑتے ہوں جس سے بچہ اداس ہو تا ہو اور دل لگا کر کام نہ کرسکتا ہو۔
یہی صورت حال عام آدمی کی ہے۔ ملک اور ریاست میں عام آدمی کے احساس اجنبیت سے ریاست کو سروکار نہیں۔ شاید اس احساسِ اجنبیت اور عدم تحفظ کی وجہ ریاستی ستونوں کی باہمی چپقلش ہو جیسے گھر میں والدین کی چپقلش بچوں کی نفسیات تباہ کر دیتی ہے۔ بچوں کی اور عام آدمی کی اداسی کو مایوسی نہ بننے دیں۔ بولنے والوں کے لیے لاؤڈ سپیکر بند، ٹی وی پروگرام پر پابندی، جلسہ جلوس بند، دلیل کی بجائے ان کو بچپن سے ہی آواز بلند کرنا سکھایا گیا ہے۔ آپ نے وہ راستہ ہی روک دیا؟
کسی بھی نظریے کے خلاف طاقت کا استعمال اس نظریے کو زندگی دیتا ہے۔ اس لیے نظریات کو دلیل سے نمٹیں اور صریح مخالف نظریات کے مناظرین کو آمنے سامنے بٹھائیں۔ ہم خیال اور ہم مشرب وہم مزاج مذاکرات نہیں کرتے وہ وقت گزاری کے لیے فقط باہمی دلچسپی کے امور پر بات کرتے ہیں۔ مذاکرات متضاد سوچ اور نظرئیے کے مابین ہوتے ہیں۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی غلطی ہم نے ہمیشہ کی۔ ہمارے ہاں سیاسی ناکامی پر دونوں ناکام فریق ناکامی کا درجہ ماپنے پرمذاکرات شروع کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی ذَکر آشنائی پر اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔ مخالف مسالک کو زبردستی آمنے سامنے بٹھاؤ اور ان کے خرچے پر بٹھاؤ۔ ہم کلام ہوں گے تو غبار ہلکا ہوگا، شدت کم ہوگی۔ اسلحے سے پیار کرنے والی نسل کو اسلحہ تھمائیں اور پیراملٹری ٹریننگ شروع کروائیں۔ این سی سی کی طرح سب کو اس میں شامل کریں۔ ملک صاف کروائیں، تعمیر کروائیں، ٹارگٹ دیں اور تکمیل والوں کو سپہ سالار وصدر عالی وقار سےاعزاز دلوائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وطن کے جشن کے ایام پر پریڈ کروائیں تاکہ کولیسٹرول لیول برقرار ہو جائے۔ آخر میں ہر مجاہد سے حلف لیں کہ معاشرے میں سوائے امن، برداشت اور محبت کے کسی نظرئیے پروقت، مال اور توانائی ضائع نہیں کریں گے۔ دیکھ لیجئے گا معاشرہ گل وگلزار بن جائے گا۔ جوانوں کو احساس دلائیں کہ تم اس ملک کے وارث ہو، محافظ ہو اور مستقبل ہو۔ لسانیت، علاقایت، فرقہ واریت اور سیاست کے ڈینگی وائرس کا بہترین حل نہیں ہے۔ جوان خون کی شدت کو اس ذریعے سے راستہ نہ دیا تو خود ساختہ جہادی، داعیان مذہب نئی نسل کے خون سے امن، برداشت اور محبت کے سفید خلیے چاٹ کھائیں گے۔ ستر ہزار جانیں گنوا کر بھی اندازہ نہیں ہوا ہمیں؟
آندھی تناور درختوں کو جڑ سے اکھیڑ کر رکھ دیتی ہے اور اعتقادات کے خلاف طاقت کا استعمال ریاستوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ جذبات ونظریات کی شدت طاقت کی بجائے ہمیشہ مکالمے سے کم ہوتی ہے۔ غیرفطری اعتقادات ونظریات کاٹکراؤ دلیل وبرہان سے ہو تو ان کی شدت پاش پاش ہوجاتی ہے۔ ہم نے نسلیں گنوا دیں کیوں کہ ہم نے غور نہیں کیا۔ اگر شدت کومحفوظ راستہ نہیں دوگے تو وہ سارے راستے منجمد کرکے اپنا راستہ بنائے گی اور جو کچھ راستے میں آئے گا ملیامیٹ کر دے گی۔ چاہے وہ جمہور کا اکثریتی ووٹ ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ آپ نے APS سے اٹھنے والی شدت کو راستہ دینے کی بجائے ڈان لیکس کی رکاوٹیں کھڑی کیں اور پاش پاش ہوئے۔
دلیل کو کچل کر اشتعال بنایا گیا ہے۔ بہتر ہے اس طرف کی شدت کو راستہ دیا جائے۔کلاؤڈ برسٹ بھی اسی نظام قدرت کاحصہ ہیں۔ حال ہی میں وادی نیلم لیسوا میں پندرہ منٹ میں 35 انسانی جانیں، سینکڑوں گاڑیاں اور زمین وجنگل خس وخاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ محکمہ موسمیات بھی دنگ رہ گیا۔ نظام میں ایسے کلاؤڈ برسٹ کا بہت خطرہ موجود ہے۔گرم ہواؤں کی شدت کو راستہ دینا ہوگا۔
بلاگ رائیٹر کامختصر تعارف:
بلاگ کے مصنف کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے۔ ایک سرگرم طالب علم رہنما ہیں۔ اسلامی وبین الاقوامی قانون میں ایم فل کی ڈگری مکمل کر چکے ہیں۔