انگریزی آسان ہو گئی، خدا خدا کر کے چیٹ جی پی ٹی کا اس حد تک عوامی ماڈل آ گیا تھا کہ جسے استعمال کرتے ہوئے مجھ جیسے پیدائشی اردو میڈیم لوگ مادر زاد انگریزوں کی طرح لکھ سکتے تھے لیکن اب ایک اور مسئلہ ہے، ادارے اسے سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔
آپ پورا آئیڈیا اپنی سادی سی انگریزی میں لکھ کر اے آئی کو دیتے ہیں، اسے سمجھاتے ہیں، پانچ پانچ گھنٹے محنت کرتے ہیں، نوک پلک سنوارتے ہیں اور جب آپ کا لکھا ہوا آگے پہنچتا ہے تو جواب آتا ہے کہ یہ اتنے پرسنٹ اے آئی جنریٹڈ ہے، اسے انسانی جون میں لائیں یا السلام علیکم۔ بعض اوقات وجہ بتائے بغیر ہی آپ کو ریجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تجربہ کر دیکھ لیں، ایک ہی ٹیکسٹ کو آپ جب دو تین مختلف ویب سائٹس پہ رکھیں گے تو ہر ایک کا رزلٹ مختلف ہو گا۔ ایک کہے گی اس میں 30 فیصد مواد اے آئی کا ہے، دوسری 70 فیصد کہے گی، تیسری یہ بھی بتا سکتی ہے کہ سب کچھ سو فیصد انسانی کاوش ہے، اس میں دور دور تک کوئی اے آئی موجود نہیں ہے۔
یہاں اس مسئلے کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جب تک انسانوں کے پاس ایک سٹینڈرڈ ویب سائٹ نہیں ہوتی جس پہ 100 فیصد اعتبار کیا جا سکے، اور جس پہ مشترکہ طور پہ سب کا بھروسہ ہو کہ یہ واحد ٹول ہے جو اے آئی ٹیکسٹ کو ٹھیک سے پکڑتا ہے، تب تک دو فیصد بھی اے آئی کی مدد لیں گے تو آپ خطرے میں ہیں، حتی کہ گوگل ٹرانسلیٹ بھی جو کچھ دیتا ہے وہ اے آئی ٹیکسٹ میں ہی شامل ہے۔
اور اس وجہ سے جڑا المیہ یہ ہے کہ ایسا سٹینڈرڈ کبھی طے ہی نہیں ہو سکتا، وہ کیوں؟
چونکہ خود وہ ویب سائٹ بھی اے آئی ہی سے کام لے کے پتہ لگا رہی ہے کہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ بذات آپ ہیں یا کوئی مشین ہے، اور اے آئی سو فیصد قابل اعتبار کبھی بھی نہیں ہو گا۔ (یہ 100 فیصد والی بات تو خود چیٹ جی پی ٹی بھی کہتا ہے، پوچھ کے دیکھ لیں۔)
ایک بہت بڑا مسئلہ چیٹ جی پی ٹی کے ’ہیلوسینیشن‘ کا ہے۔ فرض کیا آپ نے اس سے یہ پوچھا کہ فٹبال کی تاریخ پہ پانچ بہترین کتابیں بتائیں، وہ چار ٹھیک بتا دے گا لیکن ایک ایسی ہو گی جس کا دنیا میں کوئی نام و نشان نہیں ہو گا۔
یہ چیز ثابت کرنے کو میں نے پوچھا کہ اردو کی پانچ بہترین کتابیں بتائیے تو چوتھی کتاب کا نام گڈریا تھا اور وہ راجندر سنگھ بیدی کی لکھی ہوئی تھی۔ اس کے آگے بڑے پراعتماد طریقے سے یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ ’یہ افسانوی مجموعہ انسانی جذبات، سماجی مسائل، اور معاشرتی حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے۔‘ حالانکہ گڈریا اصل میں اشفاق احمد کا یادگار افسانہ ہے۔
تو شدید پراعتماد طریقے سے غلط معلومات ایسے دینا کہ اگلا بندہ یقین کر لے، یہ چیٹ بوٹس کے پروگرامنگ کا مسئلہ ہے، انہیں باقاعدہ فیڈ کیا گیا ہے کہ معلومات کس طرح مستند ترین دکھائی جا سکتی ہیں اور وہ صحیح غلط، ہر چیز ایسے ہی بتاتا ہے جیسے حرف آخر ہے۔
چیٹ جی پی ٹی پر ایک تحقیق تو یہ بھی کہتی ہے کہ جتنا زیادہ ڈیٹا اسے ملتا جائے وہ اتنا ہی ناقابل اعتبار ہوتا جائے گا کیونکہ وہ سب ڈیٹا جو آج کل کی بیشتر ویب سائٹس پہ موجود ہے، خود بھی اے آئی جنریٹڈ ہے۔
تو کُل ملا کے جو سوال چیٹ جی پی ٹی سے آپ پوچھیں گے، اس کا جواب وہ سو فیصد دے گا لیکن جواب درست کتنا ہے اور اس میں غلطی کتنے فیصد ہے، یہ آپ اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک آپ اس میں دیا گیا ہر ریفرنس خود سے چیک نہیں کر لیتے۔
اب آپ تحقیق کر رہے ہیں، صحافی ہیں یا کوئی طالب علم ہیں، آپ نے اپنی پوری ریسرچ چیٹ جی پی ٹی کو دی اور اس سے کہا کہ اسے اچھی انگریزی میں کر کے واپس کر دو، اس نے پندرہ بیس سیکنڈ میں سب کچھ استری کر کے واپس کر دینا ہے لیکن کتنے ہی لفظوں کے معنی کہاں سے کہاں پہنچ گئے، جو ریفرنس ملے وہ ٹھیک تھے یا نہیں، وہ آپ کبھی نہیں جان سکیں گے۔ کیوں؟ کیوں کہ زبان کی باریکیاں آپ نہیں جانتے تھے اسی لیے آپ نے ایک روبوٹ کو استاد مقرر کیا۔
یہی معاملہ کسی بھی دوسری چیز میں روبوٹ سے کام لینے کا ہے، آپ اسے مشیر رکھیں تو ٹھیک ہے، استاد بنائیں گے تو مار کھانے کا سو فیصد چانس ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید تفصیل چاہیں تو یوں سمجھ لیجے کہ جس بات سے آپ واقف ہیں، اسے چیٹ جی پی ٹی سے کروائیں اور بعد میں جہاں غلطی لگے خود درست کر لیں، مگر جو چیز نہیں جانتے، اس کے لیے زحمت کریں اور پرانے کلاسیکل طریقہ کار کے مطابق مستند ویب سائٹس اور کتابوں ہی سے جا کے معلومات ڈھونڈیں۔
اب آتے ہیں میری مایوسی کی طرف کہ جب میں چیٹ جی پی ٹی سے اتنا اچھا لکھ لیتا ہوں تو کوئی بھی ادارہ اسے قبول کرنے کی بجائے اس پہ ’بوٹ جنریٹڈ‘ کا ٹھپا لگا کے واپس کیوں کر دیتا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ایجاد جو پہلے ہی ناقابل اعتبار ہے، اور یہ بات تحقیق کی دنیا کا ہر آدمی جانتا ہے، تو یہ علم رکھتے ہوئے بھی ایک آدمی اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنا اہم ترین ڈیٹا جنریٹ کر رہا ہے، تو وہ آدمی کتنا قابل اعتبار ہو گا؟
معمولی ترین مثال آپ کا سی وی یا نوکری کی درخواست ہے، آپ وہ چیٹ بوٹ سے بنوا رہے ہیں، اس نے بنا بھی دی ہے بہترین قسم کی، لیکن جب کمپنی کے پاس جائے گی اور وہ چیک لگائے گی اور سب کچھ اے آئی بیسڈ نکلے گا تو کمپنی پتہ ہے کیا سوچے گی؟ یہ بندہ جو اپنی روزی روٹی کا اہم ترین معاملہ بھی روبوٹوں سے کروا رہا ہے، وہ ہمارے کام خود اپنے دماغ سے کیسے کرے گا؟
آپ کی غلطی کے ذمے دار آپ خود ہیں لیکن جو غلطی جان بوجھ کے آپ کروائیں اس کا ذمے دار آخر میں کون ہو گا؟
ظاہری بات ہے خود آپ!
تو بس دھیان کریں، مجھے حال ہی میں کافی تلخ تجربے ہوئے، بہتر لگا، بتا دیا، ہاں، اگر آپ نے اپنی غلطیوں سے ہی سیکھنا ہے تو بسم اللہ!