صوبائی پنجاب کی ’ستھرا پنجاب سکیم‘ کے تحت نئے نظام میں شہری و دیہی علاقوں سے گھر گھر جا کر کوڑا اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے کا بندوبست پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے تشکیل دیا گیا ہے، جس کے لیے نئی مشینری اور ملازمین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے منگل کو لاہور میں ستھرا پنجاب سکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ صوبے کے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں تاریخ کے سب سے بڑے صفائی کے نظام نے کام شروع کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نجی کمپنیوں کے اشتراک سے پنجاب کے ہر شہر اور دیہات میں صفائی کو یقینی بنایا جائے گا اس کے لیے اربوں روپے کی مشینری خریدی گئی ہے اور ایک لاکھ افراد کو روزگار دیا جا رہا ہے۔
یہ پہلی حکومت نہیں جس نے صفائی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے نیا نظام متعارف کرایا بلکہ اس سے قبل بھی دو بار اسی طرح کے موثر نظام صفائی متعارف کرائے جا چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس بار بنائے گئے نظام سے صفائی کو یقینی بنایا جاسکے گا یا نہیں؟
وزیر بلدیات ذیشان رفیق نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، ’صوبے میں 57 سے 60 ہزار ٹن کچرا روزانہ پیدا ہوتا ہے جبکہ موجودہ نظام کے تحت صرف 18سے 20 ہزار ٹن تک کچرا اٹھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن نئے نظام سے شہری اور دیہی علاقوں میں نہ صرف صفائی بلکہ کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا بھی مکمل منصوبہ بنایا گیا ہے۔‘
سابق کنسلٹنٹ محکمہ بلدیات پنجاب عبد الرؤف انجم کے مطابق ’صفائی ستھرائی کا معاملہ صوبائی نہیں بلکہ ضلعی حکومتوں کا مینڈیٹ اور مسئلہ ہے۔ جب تک ضلعی حکومتیں فعال نہیں ہوں گی گلی، محلوں میں صفائی اور کچرا ٹھکانے لگانے کا کام بہتر نہیں ہو سکتا۔ نظام تو پہلے بھی موجود ہے مگر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہی رہا ہے۔ صوبے کے بیشتر شہری اور دیہی علاقوں میں سیوریج کا نظام بھی نہیں اور گلی محلوں میں بکھرے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا بھی موثر نظام نہیں ہے۔‘
نئے نظام سے بہتری آئے گی؟
وزیر بلدیات ذیشان رفیق نے کہا کہ ’اگرچہ صوبے میں پہلے سے شہری علاقوں میں آٹھ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں تحصیل میونسپل کمیٹیاں بھی کام کر رہی ہیں جن کی ذمہ داری شہریوں کو میونسپل سہولیات فراہم کرنا ہے۔ لیکن کوئی جامع حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی شہر میں مکمل صفائی کی ذمہ داری قبول کرنے کو کوئی تیار نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہماری حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے شہروں میں صفائی کے چیلنج سے نمٹنے کا اعلان کیا۔ اس نئی سکیم کے تحت عملی طور پر کام شروع ہو چکا ہے۔ جس کے لیے جدید چھوٹی بڑی گاڑیاں خرید کر نظام میں شامل کی گئی ہیں۔ اس مقصد کے لیے نجی کمپنیوں سے شراکت داری کی گئی ہے۔ موبائل ایپ کے ذریعے شہریوں کی شکایات اور کام کرنے والے سینیٹری ورکرز کی کارکردگی پر نظر رکھی جائے گی۔‘
عبدالروف انجم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صفائی، سیوریج، سڑکوں اور نالیوں کی تعمیر جیسے معاملات ضلعی حکومت کے ہوتے ہیں۔ میونسپلٹی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اپنی حدود میں وہ یہ کام کیسے کرے گی۔ چونکہ پنجاب میں بلدیاتی نظام سرے سے موجود ہی نہیں اس لیے اس طرح کی سکیمیں سوچی جا رہی ہیں۔
’دنیا میں کہیں بھی صفائی ستھرائی کے معاملات وفاقی یا صوبائی حکومتیں نہیں دیکھتیں۔ کیونکہ ایک ایک گلی محلے میں جانے کے لیے نہ تو ان کے پاس افرادی قوت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ چیزیں ایسے مینیج ہوتی ہیں۔‘
ان کے بقول، ’آج بلدیاتی اداروں کو کھڑا کیا جائے اور ان کے ذمے یہ کام لگائے جائیں تو یہ اچھی طرح ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بلدیاتی نمائندوں کا تعلق بھی گلی محلوں سے ہوتا ہے اور ان کا عوام سے نچلی سطح تک رابطہ رہتا ہے۔ لہذا ان تک شکایت پہنچانا بھی آسان ہوتا ہے ان کے لیے ایسے مسائل فوری حل کرنا بھی قدرے آسان ہوتا ہے۔‘
سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی صفائی پالیسی
پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی گئی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) کی آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1992 تک لاہور میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ (ایس ڈبلیو ایم) کمپنی کے نام سے میونسپل کارپوریشن کی برانچ کام کرتی تھی۔
پھر 2009 میں اس شعبے کو بہتر بنانے کے لیے ایک ذیلی برانچ پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) قائم کی گئی۔
تاہم مسائل حل نہ ہونے پرایک سال بعد ہی مارچ 2010 میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور سمیت پنجاب میں آٹھ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں تشکیل دینے کی منظوری دی۔
رپورٹ کے مطابق جب نئی کمپنی تشکیل دینے سے بھی شہر میں صفائی کا نظام بہتر نہ ہوا تو پنجاب حکومت نے یہ ذمہ داری غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک سال بعد یعنی 2011 میں صفائی کا کام آؤٹ سورس کر کے ترک کمپنیوں ’الباراق‘ اور ’اوزپاک‘ کو کام سونپ دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاہدہ طے پایا کہ دونوں کمپنیوں کو پہلے سال 25 لاکھ 44 ہزار ڈالر رقم ادا کی جائے گی۔
یہ رقم ہر سال کام میں بہتری کے معیار کی بنیاد پر بڑھائی یا کم کی جاسکے گی۔
ان کمپنیوں نے اپنی جدید مشینری سے صفائی، کوڑا اٹھانے اور تلف کرنے تک کا کام سنبھال لیا اور تب سے یہی کمپنیاں کام کرتی رہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو پہلے سال ہی ان دونوں غیر ملکی کمپنیوں کو دیے جانے والے فنڈز پر کابینہ اجلاس میں اعتراض کیا گیا۔ کچھ دن تک فنڈز جاری نہ ہوئے تو کمپنیوں نے کام روک دیا۔
نتیجے کے طور پر شہر میں ہر طرف کچرے کے ڈھیر لگ گئے۔
عوامی دباؤمیں حکومت نے فنڈز جاری کر دیے اور دوبارہ صفائی کا کام شروع ہو گیا۔ لیکن ایک سال بعد ان صفائی کمپنیوں کو ادائیگی کی سمری کابینہ میں پیش ہوئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے سامنے بھی زائد ادائیگی کا اعتراض رکھا گیا۔ جس پر کابینہ نے فیصلہ کیا کہ ان کمپنیوں سے معاہدہ ختم کر کے صفائی کا کام پہلے سے موجود ایل ڈبلیو ایم سی کے ذریعے کروایا جائے۔
لہذا جنوری 2021 سے ترکی کی کمپنیوں نے کام بند کر دیا اور صفائی کا کام ایل ڈبلیو ایم سی کو سونپ دیا گیا۔
اس حوالے سے حکومت پنجاب کی جانب سے بڑے کمرشل یونٹ شادی ہالز اور چھوٹے تجارتی صنعتی مراکز کے لیے 15سو روپے ماہانہ، دکان داروں پر ایک ہزار روپے ٹیکس کی تجویز زیر غور ہے۔
جبکہ شہری علاقوں میں 10 مرلہ کےگھروں پرپانچ سوروپے ٹیکس پانچ مرلے کے گھر پر تین سو روپے جبکہ دیہی علاقوں میں سو روپے ٹیکس لگانے کی تجاویز بھی گذشتہ کئی ماہ سے زیر غور ہیں۔