ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سفید فام برطانوی لوگوں میں شدت پسند نظریات پائے جانے کی شرح پاکستانیوں سے بھی دگنی ہے۔
کوئین میری یونیورسٹی کے پروفیسروں کی جانب سے ایک انتباہ کیا گیا تھا جس میں یہ واضح کیا گیا کہ برطانیہ میں اسلامی بنیاد پرستی پر لوگوں کی توجہ بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس تنبیہہ کے بعد برطانوی حکومت نے ہر سطح پر ایسی سوچ کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
اس تحقیق میں ایک سوال یہ تھا 'کیا آپ خودکش بم دھماکوں اور دہشت گرد حملوں کو سیاسی اختلاف رائے کے اظہار کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں؟'
حیران کن طور پر 15 فیصد برطانوی جبکہ 8 فیصد پاکستانی نژاد لوگوں نے اسے درست قرار دیا۔
مذہبی تفریق کے لحاظ سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق 18 فیصد مسیحی جبکہ آٹھ فیصد مسلمان ان حملوں کے حق میں تھے جبکہ اس نظریے کو غلط قرار دینے والوں میں 59 فیصد مسیحی اور 68 فیصد مسلمان شامل تھے۔
لندن کے مشہور ماہر نفسیات پروفیسر کملدیپ بھوئے کے مطابق انسداد دہشت گردی کی برطانوی پالیسی غیر ضروری طور پر مسلم انتہا پسندی پر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔ ان کے خیال میں سفید فام برطانوی لوگوں کے اندر پائی جانے والی انتہا پسندی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’سفید فام برطانوی، پاکستانی نژاد لوگوں کی نسبت دگنی سطح پر دہشت گرد نظریات کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں، یہ حقیقت بہت چونکا دینے والی ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا، 'یہ رجحان دائیں بازو کے نظریات کی شدت پسندی پر سوال اٹھاتا ہے اور ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ صرف مسلم انتہا پسندی پر توجہ مرکوز رکھنا غلط ہے، ہمیں انتہا پسندی کو وسیع تر معنوں میں زیرنگرانی رکھنا ہی پڑے گا۔'
گذشتہ ہفتے کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہ لوگ جو مبینہ طور پر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوئے ان میں 43 فیصد ملزمان سفید فام تھے جب کہ ایشیائی نژاد افراد کی تعداد 32 فیصد تھی۔
اسی طرح گذشتہ برس گرفتار ہونے والوں میں تین چوتھائی لوگ برطانوی نژاد جبکہ چار فیصد پاکستانی تھے۔
سکیورٹی اداروں نے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے 14 اسلامی جبکہ چار میسحیوں کی انتہا پسند سازشوں کا سال 2017 میں سراغ لگایا جبکہ 700 سے زائد کیسز ایسے ہیں جن پر ابھی تحقیقات جاری ہیں۔
برطانیہ کے ادارہ برائے انسداد دہشت گردی کے اسسٹنٹ کمشنر نیل باسو کے مطابق پولیس کے پاس موجود کیسوں میں 80 فیصد سے زیادہ تفتیش 'جہادی' نظریات رکھنے والوں کے خلاف جبکہ 20 فیصد عمومی طور پر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف ہو رہی ہے۔
نیل باسو کے مطابق، 'اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ جہادی اور سفید فام انتہا پسندی جیسے عقیدے ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور مجموعی طور پر ایک دوسرے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔'
گذشتہ ایک برس میں جہاں اسلامی شدت پسندی میں کمی ہوتی دیکھی گئی ہے وہیں ایسے لوگوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر 36 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے جو برطانیہ کے روایتی دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے نظریات کٹر پن کی حد تک شدت پسند تھے۔
کوئین میری یونیورسٹی لندن کے لیکچرر ڈاکٹر کلائیو گابے کے مطابق یہ لمحہ فکریہ ہے اور برطانوی حکومت کو بریگزٹ ووٹروں کے اس رجحان پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو ابھی حالیہ رائے شماری میں نظر آیا ہے۔ ان سب کا رویہ پناہ گزینوں کے معاملے میں شدید تعصب انگیز تھا۔
سروے میں یہ چیز بھی سامنے آئی کہ وہ لوگ جو برطانیہ میں پیدا ہوئے ان میں شدت پسندوں کے لیے ہمدردی ان لوگوں کی نسبت کافی زیادہ پائی گئی جو کہیں اور پیدا ہوئے تھے۔
تحقیق کنندگان کے مطابق جوان اور غیر شادی شدہ لوگوں میں دہشت گرد رجحانات بوڑھے، طلاق یافتہ یا شادی شدہ لوگوں کی نسبت بہت زیادہ پائے گئے جبکہ اس تمام پسند یا ناپسند کا تعلق ان لوگوں کی جنس، مذہب، تعلیم یا حالات زندگی سے نہیں تھا۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مایوسی، بے چینی یا کسی بھی سانحے کے بعد پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ بھی ایسے عوامل تھے، جن کے نتیجے میں شدت پسند رجحانات نے جنم لیا۔
پروفیسر کملدیپ بھوئے نے وضاحت کی، 'یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ ان لوگوں کی مدد کرنا کس قدر ضروری ہے جو دماغی مسائل کا شکار ہیں، جنہیں شاید شدت پسندوں کے پیغامات ملتے ہوں گے اور وہ ان کی حقیقت سمجھے بغیر ہی ان سے ہمدردی میں مبتلا ہو جاتے ہوں گے۔'
تحقیق کنندگان کے مطابق یہ سروے برطانوی حکومت کے لیے ایک قبل از وقت انتباہ ہے۔ انہیں اس چیز کو سمجھنا چاہیے، اس سے پہلے کہ شدت پسندی دہشت گردی میں تبدیل ہو جائے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی سے اس بارے میں دریافت کرنے پر ایک عہدیدار نے بتایا کہ حکومتی پالیسی کے تحت دہشت گردی کی ہر قسم کے ساتھ سختی سے نمٹا جا رہا ہے اور کسی بھی شدت پسند تنظیم یا گروہ کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔