رپوٹروں، مدیروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت صحافیوں کی بیرونی دنیا تک رسائی روک کر اور سڑکوں پر ہراساں کرکے اپنے زیر انتظام کشمیر میں کشیدگی کی اطلاعات کو مؤثرانداز میں دبانے میں کامیاب رہی ہے۔
یہ کشیدگی کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
اس ہفتے نئی دہلی میں بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کوحکم دیا ہے کہ وہ اخبار کشمیر ٹائمز کی مدیرکی دائر کردہ پٹیشن کا جواب دے۔ پٹیشن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کشمیر میں چار اگست سے جاری مواصلاتی لاک ڈاؤن ختم کیا جائے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے موسم گرما کے دارالحکومت سری نگر میں صحافیوں نے بتایا کہ وہ خاردار تاروں کی بھول بھلیوں اور پولیس کی ناکہ بندی سے بچنے کے لیے موٹرسائیکلیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
مودی انتظامیہ کی جانب سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے شہر میں ٹریفک کے نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
انٹرنیٹ، موبائل اور لینڈ لائن فون تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وادی میں موجود سینکڑوں رپورٹر ذرائع ابلاغ کے لیے بنائے گئے سرکاری سہولت مرکز استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، جہاں موجود پانچ ڈیکس ٹاپ کمپیوٹرز میں سے دو خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔
دوسرے لوگوں نے، جو سمجھتے ہیں کہ ان کمپیوٹرز کی نگرانی کی جا رہی ہے، کہا کہ انہوں نے یو ایس بی ڈیوائسز اور ایکسٹرنل ہارڈ ڈرائیوز اکٹھی کرلی ہیں جن پر زیادہ تر احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز جمع کی جاتی ہیں۔ وہ یہ ڈیٹا بھارت کے مختلف حصوں کا سفر کرنے والے دوستوں کے ذریعے دوسرے مقامات پر منتقل کرتے ہیں۔
صحافیوں کو کوئی خبراُس وقت باہر بھیجنے میں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی مظاہرے میں موجود ہوتے ہیں۔
23 اگست سے پہلے مظاہروں کی قیادت کرنے والے پمفلٹ تقسیم کرتے تھے جن میں خود مختاری کے خاتمے کے مخالف کشمیریوں کو سری نگر کے علاقے انچرصورہ میں جمع ہونے کے لیے تاریخ، مقام اور وقت درج ہوتا تھا۔
بعض صحافی ان مظاہروں میں شریک ہونے میں کامیاب ہو جاتے تھے لیکن ان میں سے کئی صحافیوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ روانگی کے بعد انہیں ناکوں پر روکا گیا، شناختی دستاویزات لے لی گئیں اور کچھ دیر کے لیے حراست میں رکھا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحافی زوہیب پچھلے سات برس سے کشمیر میں کام کر رہے ہیں۔ وہ اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ صحافیوں کو پولیس کی طرف سے طاقت کے استعمال کے خطرے کا سامنا ہے۔
چار ستمبر 2016 کو ہونے والے ایک حادثے کے بعد زوہیب کو بائیں آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا۔ انہیں ایک پولیس اہلکار نے پیلٹ گن سے نشانہ بنایا تھا۔ پیلٹ گن مہلک نہیں ہوتی۔
اسے ہجوم پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ علاقے میں علیحدگی پسندی کے نتیجے میں دہائیوں سے جاری کشیدگی کے دوران ہزاروں کشمیری پیلٹ گنوں کی زد میں آکر زخمی ہو چکے ہیں۔
زوہیب کا خیال ہے کہ حالیہ برسوں کے مقابلے میں اِس وقت کشمیر کی صورت حال صحافیوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔
زوہیب کہتے ہیں کہ 17 اگست کو بھارتی پیرا ملٹری فورسز نے انہیں ایک کشمیری شہری ایوب خان کی آنسو گیس کی شیلنگ سے ہلاکت کے بعد پھوٹنے والے ایک مظاہرے کی کوریج سے روک دیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ سکیورٹی فورسز نے انہیں اور دوسرے صحافیوں کو احتجاج کی تصاویر کھینچنے سے روکا اور وہاں سے چلے جانے کو کہا۔
’تقریباً آدھے گھنٹے تک منتیں اور درخواستیں کرنے کے بعد، پولیس اہلکار نے بالآخر ہمیں چلے جانے کا حکم دیا۔ اس نے کہا (چل نکل، ادھر فوٹو کھینچی تو ہڈیاں توڑ دوں گا)۔‘
وادی میں کئی ہفتوں سے رابطوں میں بندش کے پس منظر میں صحافیوں کو پولیس کی جانب سے مار پیٹ کی ایسی دھمکیوں کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔
ایک ایسا ہی واقعہ بھارتی حکومت کے پانچ اگست کے اقدام کے بعد پیش آیا، جب دی انڈپینڈنٹ کے ایک رپورٹر اور فوٹو گرافر نئی پابندیوں پر رپورٹ بنا رہے تھے کہ ان کا گزر ایک فوجی چوکی کے قریب سے ہوا۔
چیک پوسٹ پر بکتر بند گاڑی اور پرانے ٹی وی کے ذریعے ٹریفک کنٹرول کی جا رہی تھی۔
جب فوٹو گرافر نے اس غیر معمولی منظر کی تصویر کھینچی تو پولیس اہلکاروں کے ایک جھتے نے رپورٹر کو گاڑی سے نیچے اتارا، ان کی ڈاڑھی کھینچی اور فون سے تصاویر ڈیلیٹ کرنے پر مجبور کیا۔
اپنی جان خطرے میں دیکھ کر رپورٹر نے ایسا ہی کیا، لیکن وہ کچھ ڈیلیٹ شدہ تصاویر ریکور کرنے میں کامیاب رہے۔
ایک پولیس افسر نے دونوں صحافیوں کو شناختی کارڈز واپس کرتے ہوئے دھمکی دی ’میرے پاس تماری پوری تفصیلات ہیں۔ اگر تم نے ایک بھی تصویر استعمال کی تو میں تمہیں مار دوں گا‘۔
وادی میں پریس ٹی وی کے لیے کام کرنے والی سینیئر صحافی شاہانہ بٹ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انہوں نے ماضی میں کبھی اتنی مشکل صورتحال میں رپورٹنگ نہیں کی۔
’پہلے دس دنوں میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کہاں جاؤں۔ میں نے اپنے 11 سالہ کیریئر میں ایسی صورتحال نہیں دیکھی۔ مواصلاتی رابطوں کی بندش نے افواہوں کو جگہ دی ہے۔ چیک پوائنٹس صحافیوں کو بروقت اہم مقامات پر پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔‘
بھارتی سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے والی کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھاشن نے بتایا کہ موجودہ بحران میں مقامی صحافیوں پر پابندیوں سے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے حق میں میڈیا کوریج ہوئی۔
انہوں نے جمعرات کو اے پی سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت کا اپنا تشہیری محکمہ ہے، لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہاں بڑے پیسے والے ٹی وی چینل ہیں۔ اسی طرح پرنٹ میڈیا کے کچھ حصے بھی سرکاری تشہیری محکمے کے مدد گار ہیں۔ یہ سب یک طرفہ تصویر دکھا رہے ہیں‘۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کہہ چکی ہے کہ مواصلاتی رابطوں کی بندش کشمیریوں کے اظہار رائے کی آزادی کی نفی ہے جبکہ بدھ کو ہیومن رائٹس واچ کی ریجنل ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا ’پابندیاں فی الفور ختم ہونی چاہییں‘۔
بھارت نے برطانوی راج کے 1885 کے قانون کا سہارا لیتے ہوئے انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد کی ہیں، جس کے تحت شہری تحفظ اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ایسا قدم اٹھایا گیا ہے۔
امریکہ کے غیر منافع بخش ’فریڈم ہاؤس‘ کے مطابق بھارت دنیا کے کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ایسے اقدامات اٹھاتا ہے۔
2014 میں مودی سرکار آنے کے بعد انٹرنیٹ پر 340 مرتبہ پابندی عائد ہو چکی ہے، اور اس میں سے نصف سے زائد مرتبہ کشمیر میں اطلاق کیا گیا۔
© The Independent