بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے مقامی خاندانوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں کئی شہری ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ انتظامیہ کا سرکاری موقف ہے کہ وہاں کوئی ایک ہلاکت بھی نہیں ہوئی۔
پانچ اگست کو نریندر مودی کی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اُس وقت سے ہی جموں اور کشمیر میں فوجی لاک ڈاؤن ہے۔
سڑکیں اور مواصلاتی نظام تقریباً مکمل بند ہونے کے باوجود عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ ریاست بھر میں چھوٹے موٹے مظاہرے ہو رہے ہیں، جن کے دوران کم از کم تین عام شہری ہلاک ہوئے۔
ان مظاہروں سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی اہلکار آنسو گیس، شاٹ گن پیلٹس، پیپر سپرے اور دیگر حربے استعمال کر رہے ہیں۔
پابندی نافذ کرنے کے دس روز بعد ریاست کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے دعویٰ کیا تھا ’جھڑپوں کے دوران کوئی ایک ہلاکت بھی نہیں ہوئی۔‘
اسی طرح، ایک تازہ پریس کانفرنس میں حکومتی ترجمان روہت کنسل نے کہا ہے کہ انہیں ’کسی عام شہری کی ہلاکت کی اطلاع نہیں‘ ملی۔
تاہم، سری نگر میں دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ایک ڈاکٹر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہسپتال عملے کو حکام کی جانب سے واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ جھڑپوں کے دوران زخمی ہونے والوں کو کم ہی داخل کریں اور انھیں جلد از جلد ہسپتال سے فارغ کریں تاکہ اعداد و شمار کم دکھائے جا سکیں۔
جہاں تک ان تین ہلاکتوں کی بات ہے تو لواحقین نے غصے میں بتایا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ سرکاری ڈاکٹر یہ کہہ دیں کہ وہ جھڑپوں کے دوران ہی ہلاک ہوئے یا کم از کم انہیں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ ہی دے دیے جائیں۔
نو اگست کی دوپہر 35 سالہ فہمیدہ بانو، جن کے دو بچے ہیں، اپنے گھر پر موجود تھیں جب سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔ ان کے شوہر 42 سالہ رفیق شگو اپنے بچوں کو گھبرایا دیکھ کر کمرے کے اندر لے گئے۔
شگو نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا :’مظاہرین کا پیچھا کرتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں نے گھروں کی طرف پتھراؤ شروع کر دیا جس کے نتیجے میں کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ اگر ان کے راستے میں کوئی کھڑی گاڑی بھی آجاتی تو وہ اسے بھی نقصان پہنچاتے۔‘
وہ بتاتے ہیں ان کی بیوی بیٹ شیٹ لیے بھاگیں تاکہ کھڑکیوں کو ڈھانپ سکیں، جبکہ انھوں نے اپنے گھر کے باہر پولیس کی جانب سے چار آنسو گیس فائر ہوتے سنے۔
اسی وقت ان کی پڑوسی تسلیمہ بھی اپنے گھر کی کھڑکیوں کو ڈھانپ رہی تھیں، وہ بتاتی ہیں کہ اچانک آنسو گیس اور پیپر سپرے کے دھویں میں گھر غائب ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تسلیمہ بتاتی ہیں ’فہمیدہ کھڑکی کے پاس ہی کھڑی تھیں جب کافی زیادہ دھواں اس کھڑی سے اندر داخل ہوا، میں نے انھیں کھانستے ہوئے سنا۔‘
پھر فہمیدہ سینے میں درد اور سانس بند ہونے کی شکایت کرنے لگیں۔ شگو کہتے ہیں ’میں دیکھ رہا تھا کہ انھیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی کیونکہ بہت زیادہ دھواں ان کے پھیپھڑوں میں جا چکا تھا‘۔
شگو نے بتایا انھوں نے اپنی بیوی کو ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا، لیکن اس کے لیے اپنے پڑوسی کو قائل کرنا تھا کیونکہ ان کی اپنی گاڑی گھر سے دور کھڑی تھی۔
ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ چارٹ کے مطابق جب تک وہ گھر سے ایک کلومیٹر دور جہلم ویلی کالج (جے وی سی) ہسپتال پہنچے تو زیادہ دھواں اندر جانے کی وجہ سے فہمیدہ کے پھیپھڑے زخمی ہو چکے تھے اور ہسپتال پہنچنے کے 40 منٹ کے اندر انھوں نے دم توڑ دیا تھا۔
چار دن بعد شگو اپنی بیوی کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ لینے گئے لیکن چیف میڈیکل آفیسر نے انھیں بتایا سرٹیفیکیٹ پولیس کے پاس ہے۔
کئی دنوں کی کوشش اور ایک دوست اور ڈاکٹر کی مداخلت کے بعد آخر انھیں سرٹیفیکیٹ تو مل گیا لیکن دی انڈپینڈنٹ کو دکھائے جانے والے اس سرٹیفیکیٹ پر موت کی وجہ ’اچانک حرکت قلب بند ہونا‘ لکھی تھی۔
سرٹیفیکیٹ میں ایک سطر جو اسے بطورغیرقانونی قتل کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ ہے ’یہ ٹاکسک گیس نگلنے سے ہوئی؟‘
سرٹیفیکیٹ کے مطابق موت کی’اصل وجہ‘ کے بارے میں پوسٹ مارٹم سے معلوم ہو سکتا ہے، جس کے بارے میں سی ایم او نے بتایا کہ وہ نہیں سکتا کیوں کہ یہ ’پولیس کیس‘ نہیں۔
شگو کہتے ہیں حکام نے جھوٹ بولا۔ ’انھوں نے مجھے دھوکہ دیا۔ جب میں نے سرٹیفیکیٹ حاصل کیا تو اس میں موت کی اصل وجہ درج نہیں تھی۔ میں اپنی بیوی کی موت کی اصل وجہ درج نہیں کروا سکا۔ حکام نے ڈاکٹروں کو کہا تھا موت کی وجہ بدل دیں تاکہ ریکارڈ صاف رہے‘۔
فہمیدہ کے شوہر کو تو کم از کم ڈیتھ سرٹیفیکیٹ مل گیا لیکن 55 سالہ ایوب خان، جو اپنے گھر والوں کے لیے روزی روٹی کا واحد ذریعے تھے، کے لواحقین کا انتظار تاحال جاری ہے۔
ایوب خان کی تین بیٹیاں تھیں۔ 17 اگست کو شام چار بجے سری نگر کے علاقے یاریپورہ میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
عینی شاہدین کے مطابق بیمینا کی طرح یہاں بھی مظاہرین کا پیچھا کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز نے علاقے کے گھروں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
ایوب خان گھر پر ہی موجود تھے جب انھوں نے مسجد سے اعلان سنا، جس میں لوگوں سے کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر آجائیں کیونکہ پولیس نجی املاک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
ایوب خان نے باہر جاتے ہوئے اپنی سات سالہ بیٹی مہرین سے گھر کے اندر ہی رہنے کو کہا۔ وہ مرکزی شاہراہ پر اپنے دوست 60 سالہ فیاض احمد خان سے ملے۔
فیاض نے بتایا ’ہم دونوں ساتھ کھڑے تھے، جب سکیورٹی اہلکاروں نے آنسو گیس برسانا شروع کر دی۔ ان میں سے ایک، دو تو ایوب کی ٹانگوں میں آکر پھٹ گئے اور ان کا دم گھٹنے لگا۔ انھیں فوراً ہی شری مہاراجہ ہری ہسپتال (ایس ایم ایچ ایس) لے جایا گیا۔‘
ایوب خان کے بھائی شبیر کو وہ لمحہ یاد ہے جب وہ ایوب کو ایک رکشے میں لے کر ہسپتال جا رہے تھے، ایوب کا سر ان کی گود میں تھا اور ان کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔
شبیر کے مطابق: ’جب ہم ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی مر چکے ہیں۔ ہم نے ان سے کہا وہ ریکارڈ میں اس بات کا ذکر کریں کہ ان کی ہلاکت آنسو گیس کی وجہ سے ہوئی، لیکن انھوں نے انکار کردیا۔‘
ایوب کی موت پر عوامی غصے کے خوف سے پولیس نے ان کے رشتہ داروں کو باقاعدہ طور پر آخری رسومات ادا نہ کرنے کا حکم دیا اور کہا جنازے میں دس سے زیادہ لوگ شریک نہ ہوں۔
جب ان کی میت کو ایمبولینس کے ذریعے لایا گیا تو سکیورٹی فورسز نے گھر کے باہر موجود لوگوں پر شاٹ گن پیلٹس سے دھاوا بول دیا، جس کے نتیجے میں شبیر اور دیگر رشتہ دار زخمی ہو گئے۔
چند روز بعد ایوب کے رشتہ داروں نے ہسپتال سے ڈیٹھ سرٹیفیکیٹ کا مطالبہ کیا، جہاں انھیں ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ پہلے پولیس سے ایف آئی آر کی کاپی حاصل کریں، جو ان کے رشتہ داروں کے مطابق موجودہ حالات میں ناممکن تھا۔
شبیر کہتے ہیں ’ہسپتال عملہ کسی بھی حال میں پولیس کے خلاف جا کر موت کی اصل وجہ کا ذکر نہیں کرے گا۔ یہ ناانصافی ہے، ہم ہلاکتوں کے بارے میں بھی درج نہیں کروا سکتے، ہم بے یار و مدد گار ہیں۔‘
دوستوں اور رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ کشمیر کے موجودہ حالات میں پہلی ہلاکت دراصل پانچ اگست کو ہی ہوئی تھی جب سکیورٹی اہلکاروں سے بچنے کے لیے 17 سالہ اوصیب الطاف نے دریائے جہلم میں چھلانگ لگا دی تھی۔
دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے اوصیب کے ایک دوست نے، جنھوں نے اپنی شناخت صرف ’ایس‘ سے ظاہر کرنے کا کہا، بتایا اوصیب اور دیگرلوگ اُس وقت پھنس گئے تھے جب پولیس اہلکاروں نے پُل کو دونوں جانب سے گھیرے میں لے لیا۔
ایس نے بتایا: ’اوصیب کو تیرنا نہیں آتا تھا۔ جب ہم نے چھلانگ لگائی تو میں نے اوصیب کو اپنی پشت پر اٹھانے کا فیصلہ کیا، لیکن اسی دوران ایک فوجی اہلکار نے کانٹوں سے بھری چھڑی سے اوصیب کے ہاتھوں پر مارا۔‘
اوصیب کو ایس ایم ایچ ایس ہسپتال لے جایا گیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کے والد الطاف احمد کہتے ہیں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ نہ دینا ایک طرف، ڈاکٹر تو وہ دستاویزت بھی دینے سے انکار کر رہے ہیں جن سے تصدیق ہو کہ اوصیب کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
’ڈاکٹروں پر ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری نہ کرنے کا دباؤ ہے۔ بھارت دعویٰ کرتا ہے کشمیر میں حالات ٹھیک ہیں، جو سچ نہیں۔ اگر وہ پابندیاں اٹھا دیں تو سچ سامنے آجائے گا۔‘
جب بھارتی حکومت سے پانچ اگست کے بعد سے کشمیر میں ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو دہلی میں حکام فوری طور پر کوئی جواب نہ سکے۔
سری نگر میں پولیس حکام کا کہنا ہے وہ ’ان ہلاکتوں کے بارے میں کوئی بھی اعداد و شمار‘ دینے سے قاصر ہیں لیکن وہ دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے اٹھائے جانے والے کیسز کو دیکھ رہے ہیں۔
فہمیدہ کو طبی امداد فراہم کرنے والے جے وی سی ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر نے اپنے ڈاکٹروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا وہ آنسو گیس کو موت کی وجہ کے طور پر اس وقت تک نہیں درج کر سکتے تھے جب تک مکمل طور پر ثابت نہ ہو جائے۔
انھوں نے کہا: ’سرٹیفیکیٹ پر سوالیہ نشان موجود ہے جس کا مطلب ہے ’ممکنہ طور پر‘، ہم نے موت کی قطعی وجہ کا ذکر نہیں کیا۔‘
کشمیر میں غیرمعمولی پابندیوں کو 20 دن سے زائد ہو گئے ہیں اور حکام کے خیال میں وادی میں حالات ’معمول پر آرہے‘ ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے وہ مواصلاتی نظام کی بندش پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے لیکن اسے ’جلد‘ بحال ہوتا بھی نہیں دیکھ رہے۔
دہلی سے ایڈم وٹنہال کی اضافی رپورٹنگ
© The Independent