پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی ایک ٹیم 17 برس قبل ہونے والے دہرے قتل کے ملزم ابرار حسین کو اٹلی سے گرفتار کر کے اتوار کی شب پاکستان پہنچ گئی ہے۔
انسپیکٹر انچارج سپیشل آپریشن سیل گجرانوالہ خالد وریاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اشتہاری ملزم ابرار حسین نے 2006 نے اپنے چچا کے بیٹے اور ان کی اہلیہ کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد ابرار بیرون ملک فرار ہو گئے۔‘
اس کیس کی ایف آئی آر 23 اپریل 2006 میں تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن ضلع گجرانوالہ میں دفعہ 302، 149، 109 اور 148 کے تحت مقتولین کی صاحبزادی کی مدعیت میں درج کی گئی تھی۔
خالد وریاہ نے بتایا کہ ’ہم تب سے ان کا پیچھا کر رہے تھے اور اس وقت کی ان کے سفری ریکارڈ کے مطابق یہ جنوبی افریقہ فرار ہو گئے تھے۔ جب ہم نے جنوبی افریقہ کے حکام کے ساتھ رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہاں سے ہالینڈ کا ویزہ لے کر یورپ چلے گئے ہیں۔ پھر ہم نے اپنا رخ یورپ کی جانب کیا تو معلوم ہوا کہ ابرار نے وہاں سے سپین کا ویزہ اور ریذیڈنٹ کارڈ بھی لیا ہوا تھا لیکن جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ پولیس ان کو ڈھونڈ رہی ہے تو ابرار سپین سے اٹلی چلے گئے جہاں انہیں تین ماہ قبل حراست میں لیا گیا تھا۔‘
پنجاب پولیس کے مطابق ملزم ابرار حسین کے ایک بیٹے بھی غیر قانونی طور پر سپین میں رہ رہے تھے اور ابرار بھی وہاں ان کے ساتھ تھے۔
’ابرار سپین میں ایک ریستوران میں کام بھی کر رہے تھے اور جب انٹر پول متحرک ہوئی اور ہمیں یورپ میں ان کی موجودگی کے شواہد ملے تو یہ وہاں سے فرار ہو کر اٹلی چلے گئے اور وہاں روپوش ہو گئے۔‘
انسپیکٹر خالد وریاہ نے مذید بتایا کہ ’ہم اس ملزم کا پیچھا 10 سال سے کر رہے تھے اور یہ واحد کیس نہیں ہے بلکہ سینکڑوں ایسے کیسسز ہیں جن پر ہم اپنا فالو اپ جاری رکھتے ہیں۔ اور ملزم کو پکڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘
انسپیکٹر خالد وریاہ نے ابرار کی گرفتاری عمل میں آنے کی مذید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ابرار اٹلی کے صوبے میلان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے جب انہیں گرفتار کیا گیا تو انہیں وہیں ایک جیل میں پہلے تین ماہ قید کیا گیا۔ پہلے وہاں کی میٹرو پولیٹن اور بعد میں ان کی ہائی کورٹ میں ان کا کیس چلااور آخر کار ہمیں وہاں سے اان کو اپنی تحویل میں لینے کی اجازت مل گئی۔‘
رواں برس فروری میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی ہدایت پر پنجاب پولیس نے اندرون ملک اور بیرون ملک روپوش اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور انٹرپول کے تعاون سے لاہور میں لائزن ونگ قائم کیا تھا۔
اس ونگ کو کام سونپا گیا تھا کہ وہ ’مشرق وسطیٰ، جنوبی افریقہ، یورپ اور امریکہ سمیت جن ممالک سے پاکستان کا معاہدہ ہے وہاں مقیم اشتہاریوں کو گرفتار کر کے واپس لائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈکیتی، قتل، چوری، فراڈ، قبضہ اور چیک باؤنس ہونے کے کیسز سمیت تمام مقدمات کے اشتہاریوں کی گرفتاری کے لیے کاروائیوں میں تیزی لائی جائے۔
ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ اگر کسی مدعی مقدمہ کا اشتہاری ملزم کسی بھی ملک میں ہے تو وہ فوری اپنے متعلقہ ڈی پی او سے رابطہ کرے۔
پنجاب پولیس کو ہدایت کی گئی تھی کہ صوبے بھر میں اس کام کے لیے بنائی گئی پولیس ٹیمیں مدعیوں کے ساتھ خود رابطہ کریں اور موثر رابطہ کاری کے ذریعے اشتہاریوں کی جلد گرفتاری کو یقینی بنائیں۔
انسپیکٹر خالد وریاہ نے بتایا کہ ’گجرانوالہ میں ہمارا ایک سپیشل آپریشن سیل ہے جس نے باقائدہ طور پر تو 2016 سے کام شروع کیا تھا لیکن ہماری ٹیم 2010 سے بیرون ملک مفرور ملزمان کو پکڑنے کے لیے متحرک ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے باہر اشتہاری ملزمان کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہم لوگ صرف گھناؤنے جرائم جن میں قتل، بھتہ خوری، دہشت گردی یا کوئی بھی منظم جرم میں ملوث ہو ان کو گرفتار کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کہ اس حوالے سے صرف اگر گجرانوالہ کی بات کریں تو یہاں سے 500 سے زیادہ ملزمان بیرون ملک فرار ہیں اور اگر پورے پنجاب کی بات کریں تو ان کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے۔
بیرون ملک مفرور اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کا طریقہ کار
انسپیکٹر خالد کے مطابق بیرون ملک مفرور اشتہاری ملزمان کو پکڑنے کا عمل لمبا ہوتا ہے۔
’سب سے پہلے تو ہم اشتہاری کا ریڈ وارنٹ جاری کرتے ہیں۔ اس میں پاکستان کی طرف سے فرانس میں قائم انٹرپول کے ہیڈ کوارٹر میں درخواست دی جاتی ہے۔ وہاں سے ریڈ نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔
’اس کے بعد اس کا دوسرا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کامن ویلتھ ممالک کے تین مرحلے ہیں جبکہ باقی ممالک کے لیے دو مرحلے ہیں۔ ہمیں ملزم کو گرفتار کروانے کے لیے بھی ایک نیشنل اریسٹ وارنٹ چاہیے ہوتا ہے جو اس ملک سے ملتا ہے جہاں وہ ملزم رہ رہا ہو۔ باقی ممالک میں صرف ریڈ وانٹ ہی اریسٹ وارنٹ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔‘
پنجاب پولیس کے انسپیکٹر نے بتایا کہ جب ملزم گرفتار ہو جاتا ہے تو انٹر پول کا کام ختم اور ملزم کو پاکستان واپس لانے کے لیے ڈپلومیٹک چینل پر کام شروع ہو جاتا ہے۔ ملزم کی دستاویزات ڈپلومیٹک چینلز پر چلی جاتی ہیں اور یہاں عدالتی عمل شروع ہو جاتا ہے۔
’یہ کیسسز اس ملک کے اعلیٰ عدالتوں تک جاتے ہیں یورپ میں ایسے کیسسز مہینوں اور سالوں تک چلتے ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ میں ایسے کیسسز پانچ چھ مہینوں میں نمٹ جاتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اٹلی سے گرفتار ہونے والے ابرار حسین پر اب مقدمہ چلے گا اور اگر عدالت میں ان پر جرم ثابت ہو گیا تو انہیں مجرم قرار دیا جائے گا اور انہیں سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انسپیکٹر خالد وریاہ نے ایسے کچھ مذید کیسسز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’ایک اشتہاری لقمان عرف ہلاقوبٹ بھتہ خوری اور قتل کے درجنوں مقدمات میں 2011 سے مطلوب تھے جنہیں ہم 2021 میں پکڑ سکے۔ ان کو تلاش کرنے کے لیے ہم نے 10 سے زیادہ ممالک میں ہنٹ آپریشن کیا تب جا کر ہمیں ان کے مقام کا معلوم ہوا اور ہم نے انہیں بالاخر انڈونیشیا سے جا کر پکڑا تھا۔‘
ان کے مطابق: ’ہمارے پاس ایک بدنام زمانہ گینگسٹر تھاعاطف زمان عرف عاطی لاہوریا۔ یہ 2007 سے مطلوب تھے اور انہیں ہم نے ہنگری سے 2017 میں پکڑا تھا۔ چار سال ان کا ہنگری کی مختلف عدالتوں میں مقدمہ چلا اور یورپی یونین کی ہیومن رائٹس کورٹ تک ان کا کیس گیا اور بالآخر ہم وہ کیس جیتے اور ان کو ہنگری میں گرفتار کرنے کے بعد واپس ملک لانے میں ہمیں چار سل لگے۔
’ہمارے تین پولیس کانسٹیبل شہید ہوئے تھے۔ ارشد نامی اشتہاری نے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے 2013 میں پولیس وین پر حملہ کیا تھا۔ ارشد کو ہم جون 2023 میں اٹلی سے ملک واپس لانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
’اصغر نامی ملزم تھے جو 13 قتلوں میں مطلوب تھے انہیں ہم سعودیہ عرب سے گرفتار کر کے واپس لائے۔ انہیں ڈھونڈنے میں بھی کافی وقت لگا اور ایسے اشتہاریوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں ہماری ٹیم نے کئی برسوں کی محنت کے بعد مختلف ممالک سے ڈھونڈ نکالا اور انہیں واپس پاکستان لے کر آئے۔‘
انسپیکٹر خالد کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم کو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور سی پی او گجرانوالہ رانا ایاز سلیم کی مدد کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ ’جب تک ڈسٹرکٹ کمانڈر نہ چاہے ایسے ملزمان کی پیروی کرنا ناممکن ہوتا ہے۔‘