جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 42ویں سیشن میں مسئلہِ کشمیر پر ترجیحی بنیاد پر بات کی جا رہی ہے۔
سیشن کے ایجنڈا آئٹم نمبر تھری میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی ریاستی خودمختاری ختم کرنے اور ایک مہینے سے نافذ کرفیو کی صورتحال پر توجہ دی گئی۔
تاہم، سابق سفیر عبد الباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا موجودہ سیشن کی اہمیت تب ہو گی اگر پاکستان کشمیر کے معاملے پر انسانی حقوق کونسل کی قرارداد لے آئے، جو ناممکن لگتا ہے کیونکہ کونسل کے 47 ارکان میں سے 16 کا قرارداد کے لیے متفق ہونا ضروری ہے اور پاکستان کو صرف نو ممالک کا تعاون حاصل ہے۔'
پیر کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمشنر نے کونسل کے 42ویں سیشن میں خطاب کے دوران کشمیر کی موجودہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا بھارت پر زور دیا کہ وہ کشمیر میں کرفیو میں نرمی اور لوگوں کو بنیادی سہولتوں تک رسائی دے اور خطے کے مستقبل کے حوالے سے کسی بھی فیصلے میں کشمیریوں کو شامل کرے۔
انہوں نے مزید کہا بھارت کی ریاست آسام میں 19لاکھ لوگوں کی شہریت کی منسوخی نے غیر یقینی اور پریشانی کو جنم دیا ہے، لہذا بھارت شہریت منسوخی کے خلاف اپیلوں کے دوران قانونی ضابطوں پر عملدرآمد یقینی بنائے اور متاثرہ افراد کو بھارت ملک بدر یا قید نہ کرے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کیا کام کرتی ہے؟
یہ دفتر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1993 میں قائم کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس دفتر اور اس کے فرائض کا تعین عالمی کانفرنس برائے انسانی حقوق میں کیا گیا۔
ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اقوام متحدہ کے تمام اداروں کے درمیان رابطہ کاری کے ذریعے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پاسداری اور عالمی قوانین کی روشنی میں ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔
کونسل کے سالانہ تین اجلاس ہوتے ہیں۔ سابق سفیر عبد الباسط نے بتایا پہلے یہ انسانی حقوق کمیشن ہوا کرتا تھا لیکن 2006 کے بعد سے اسے کونسل کا درجہ دے دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق سفیر کے مطابق امریکہ نے گذشتہ برس خود کو کونسل سے الگ کر لیا کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ ایسے ممالک بھی کونسل کا حصہ ہیں جو خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں اور جن کا اپنا ریکارڈ ٹھیک نہیں، اس لیے یہ کونسل دوسروں کے حقوق کا تخفظ کیسے کرے گی۔
کیا پاکستان کی عالمی لابنگ کم ہے؟
سابق سفیر عبد الباسط نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا 'کشمیر کے معاملے پر ہم نے ماضی میں سنجیدہ کام نہیں کیا۔ عالمی سطح پر اس معاملے کو کبھی سنجیدہ لیا ہی نہیں گیا تو اب کیا توقع کی جا سکتی ہے؟‘
انہوں نے کہا کشمیر کے معاملے پر پاکستان انسانی حقوق کمیشن کا خصوصی اجلاس بھی طلب نہیں کر سکا کیونکہ 16 ارکان کا متفق ہونا ضروری ہے اور پاکستان کے پاس مطلوبہ حمایت نہیں۔
’گذشتہ ایک، دو سالوں سے پاکستان کشمیر کے معاملے پر سنجیدہ ہوا ہے، اب ایک رات میں تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پاکستان کی عالمی لابنگ کم ہونے کی وجہ سے کونسل میں کوئی قرارداد پاس ہونے کی توقع نہیں۔'
مسائل حل کرانے کے لیے انسانی حقوق کونسل کی اہمیت
عبد الباسط نے کہا کونسل کا بلواسطہ یا بلا واسطہ اثر ضرور ہے، ایسا نہیں کہ اس کی قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں۔
انہوں نے کہا اگر کوئی متفقہ قرارداد پیش کی جاتی ہے تو متعلقہ ملک پر بہرحال ایک دباؤ ضرور پیدا ہوتا ہے، پاکستان اور بھارت کے حوالے سے ماضی میں بھی انسانی حقوق کونسل نے کام کیا ہے۔
گذشتہ سال ہیومن رائٹس کمشنر کی کشمیر کے حوالے سے رپورٹ میں بھارتی مظالم کا کھل کر تذکرہ کیا گیا تھا۔ اُس رپورٹ کا بین القوامی سطح پر تو کوئی اثر نہیں ہوا الٹا بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر دیا۔
اس حوالے سے عبد الباسط نے واضح کیا وہ ہیومن رائٹس کمشنر کی رپورٹ تھی لیکن کونسل ممالک نے اس پر قرارداد پاس نہیں کی تھی اس لیے اس کا اثر نہیں ہو سکا۔
سابق سیکریٹری خارجہ تسنیم اسلم نے بتایا کونسل کا کام مسائل حل کروانا نہیں بلکہ یہ کام اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کا ہے۔
’انسانی حقوق کونسل کا کام دنیا میں ہونے والی انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دلانا ہے۔ کونسل رپورٹس جاری کرتی ہے جس کا اثر ہوتا ہے۔‘
سابق سیکرٹری خارجہ تسنیم اسلم کے مطابق کونسل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا مرکزی ادارہ ہے اور اس کی اہمیت بہرحال موجود ہے۔
انہوں نے کہا پاکستان کے پاس موقع ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورت حال فورم پر جا کر اجاگر کرے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی وہاں موجود ہیں۔
اجلاس کے دوران شاہ محمود قریشی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی حکومت کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کا معاملہ اٹھائیں گے اور ان کے نتیجے میں خطے کو درپیش خطرات اجاگر کریں گے۔
وزیرخارجہ جنیوامیں اسلامی تعاون تنظیم اورعالمی ادارہ صحت کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
سابق سفیر عبد الباسط نے بتایا بھارت کے پاکستان میں نامزد ہائی کمشنر گذشتہ ایک ہفتے سے جنیوا میں موجود ہیں اور مسلسل لابنگ کر رہے ہیں جبکہ پاکستان نے سابق سیکریٹری خارجہ تہمنیہ جنجوعہ کو جنیوا میں سفارتی لابنگ کے لیے تعینات کیا ہے۔