23 نومبر، 2024 کو کراچی میں مختلف سیاسی جماعتوں کی ایک کانفرنس کے بعد جے یو آئی سندھ کے سربراہ راشد سومرو پریس کانفرنس کر رہے ہیں (امر گرڑو)
پاکستان کی وفاقی حکومت کے ’گرین پاکستان انیشی ایٹیو‘ کے تحت پاکستان ایریگیشن نیٹ ورک کے لیے ٹیلی میٹری سسٹم کے نفاذ، دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے نگران وفاقی ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی پالیسی کی ازسر نو تشکیل اور چھ نئی سٹریٹیجک نہروں کی تعمیر کے فیصلے کے خلاف سندھ میں مختلف سیاسی جماعتوں نے احتجاج کیا ہے۔
ہفتے کو سندھ رواداری مارچ نے اس حوالے سے حیدرآباد میں ریلی نکالی، جس میں صوبے کے مختلف شہروں سے خواتین سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
شرکا نے مختلف مطالبات پر مبنی بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سماجی رہنما سندھو نواز گھانگھرو نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت پنجاب کی لاکھوں ایکڑ زمین آباد کرنے کے لیے دریائے سندھ سے چھ متنازع نہریں نکالنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جن سے ’سندھ کی لاکھوں ایکڑ ذرخیز زمین برباد ہو جائے گی۔‘
انہوں نے کہا: ’1991 کے پانی کے معاہدے پر اعتراض کے باجود سندھ نے اس معاہدے کو قبول کیا۔ اب کم از کم وفاقی حکومت اس معاہدے کی لاج رکھ کر ایسے منصوبے فوری طور پر بند کرے ورنہ سندھ سراپا احتجاج رہے گا۔‘
سماجی کارکن زہرہ خان نے کہا سندھ کسی بھی صورت ایسے متازع منصوبوں کو قبول نہیں کرے گا۔
حال ہی میں وفاقی حکومت نے سندھ میں رینی نہراور تھر نہر، پنجاب میں چولستان نہر، گریٹر تھل نہر، بلوچستان میں کچھی نہر اور خیبر پختونخوا میں چشمہ رائٹ بینک کینال (سی آر بی سی) بنانے کا اعلان کیا تھا۔
اس پر سندھ میں احتجاج کے علاوہ صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پر الزام لگایا گیا کہ یہ منصوبے صدر آصف علی زرداری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کیے گئے۔
پی پی پی کی قیادت اس کی تردید کرتی ہے۔ چند روز قبل پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے ویڈیو بیان میں ان چھ نہروں کی مجوزہ تعمیر اور ارسا ایکٹ میں ترمیم کی مخالفت اور احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دیگر سیاسی معاملات اور ان منصوبوں پر پی پی پی کے اعتراضات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اسحاق ڈار، خواجہ آصف، عظیم تارڑ، احد خان چیمہ سمیت مختلف پارٹی رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔
یہ کمیٹی پی پی پی قیادت سے ملاقات کر کے دیگر سیاسی معملات کے ساتھ ان منصوبوں پر اس کے اعتراضات کو سنے گی۔
گذشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے تونسہ بیراج کے مقام سے نکالی گئی کچھی کینال کے سیلاب سے متاثرہ حصوں کی بحالی کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
انہوں نے اس موقعے پر کہا تھا کہ اس منصوبے کی بحالی کے ذریعے بلوچستان کے متاثرہ علاقے کو دوبارہ نئی زندگی ملے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی کا آغاز 1998 میں نواز شریف کے دور میں ہوا اور اب تک اس منصوبے پر 100 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2022 کے سیلاب میں کچھی کینال کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ ’اس منصوبے کے دوسرے مرحلے کی تکمیل اصل چیلنج ہے، اس کے لیے جہاں سے بھی وسائل لانے پڑے، لا کر اس منصوبے کو مکمل کریں گے۔‘
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ ’یہ ایک نہر نہیں بلکہ پنجاب سے ہوتا بلوچستان کی خوشحالی کا راستہ ہے، اس منصوبے پر نواز شریف کے دور میں آغاز ہوا اور تکمیل بھی ان کے دور میں ہوئی۔‘
ایک سرکاری بیان کے مطابق چیئرمین واپڈا سجاد غنی نے وزیراعظم اور دیگر شرکا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم نے 45 دن میں 2022 کے سیلاب سے متاثرہ کچھی کینال کی بحالی کی ہدایت کی اور آج اس کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا گیا ہے، کچھی کینال سے بلوچستان کی سات لاکھ 15 ہزارایکڑ اراضی سیراب ہو گی۔
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام نے آج کراچی میں ان منصوبوں کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، قومی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی پاکستان سمیت سندھی قوم پرست اور دیگر 13 سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
کانفرنس کے بعد مقامی میڈیا کو بریفنگ اور انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی - سندھ کے رہنما راشد محمود سومرو نے کہا ’آج کی آل پارٹیز کانفرنس میں ارسا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم اور نئی متنازع نہروں کی تعمیر پر بات ہوئی۔
’1991 کے معاہدے کے تحت سندھ کو اس کے حصے کا پانی دیا جائے جو مئی میں ملنا ضروری ہوتا ہے، مگر اگست میں دیا جاتا ہے، جس سے صوبے کی زراعت کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ کراچی سمیت پورے صوبے کو پینے کا پانی میسر نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح کے متنازع منصوبوں کا آغاز کر کے چند کمپنیوں کو فائدہ دیا جا رہا ہے اور کروڑوں انسانوں کو نقصان دیا جا رہا ہے۔
’سندھ ایسے کسی بھی منصوبے کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اور ایسی منصوبے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔‘