صوبہ خیبر پختونخوا کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر محمد سیف نے اتوار کو ایک بیان میں بتایا کہ حالیہ دنوں میں شدید کشیدگی کے شکار ضلع کرم میں جرگے کی کوششوں سے فریقین نے سات دنوں کے لیے فائر بندی کا اعلان کیا ہے۔
کرم کے علاقے پاڑہ چنار میں تین دن سے جاری جھڑپوں میں اب تک مقامی حکام کے مطابق 82 افراد جان سے جا چکے ہیں، جبکہ 156 زخمی ہیں۔
صوبائی حکومت نے فریقین کے مابین جھڑپیں ختم کرانے کی کوشش کے طور پر علاقے میں وفد بھیجا تھا، جس نے فریقین سے ملاقاتیں کیں۔
بیرسٹر سیف کے مطابق تصفیے کے لیے کام کرنے والے جرگے کے اراکین مشران سے ملے، جس کے بعد فائر بندی کے علاوہ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے قیدی اور لاشیں واپس کریں گے۔
اس سے قبل آج بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کرم سے متعلق جلد اچھی خبریں ملنے کا امکان ہے۔ ’مثبت پیش رفت کے بارے میں جلد آگاہ کردوں گا۔‘
بیرسٹر ڈاکٹر سیف کے مطابق عمائدین اور فریقین کے ساتھ مثبت پیش رفت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ کو تمام پیش رفت سے وقتاً فوقتاً آگاہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ حکومتی جرگے کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔‘
پرتشدد واقعات کا تازہ ترین سلسلہ جمعرات کو اس وقت شروع ہوا جب پولیس کی نگرانی میں سفر کرنے والوں کے دو الگ الگ قافلوں پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا۔
حملے میں کم از کم 43 افراد جان کھو بیٹھے۔ اس کے بعد مقامی گروہوں کے درمیان دو روز سے مسلح لڑائی جاری ہے۔
گذشتہ رات سے بگن، علی زئی بالشخیل، خار کلے، مقبل اور کنج علیزئی میں جھڑپوں کی اطلاعات ملی ہیں۔
مختلف علاقوں میں مکانات اور دکانوں کے جلائے جانے کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔
مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 21، 22 اور 23 نومبر کو ہونے والی جھڑپوں اور قافلوں پر حملوں کے نتیجے میں 82 افراد قتل اور 156 زخمی ہوئے۔
ہفتے کو تقریباً 300 خاندان وہاں سے نکل گئے تھے کیونکہ ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کا تبادلہ رات بھر جاری رہا۔
مقامی انتظامیہ کے عہدے دار نے بتایا کہ کرم میں موبائل نیٹ ورک بدستور معطل ہے اور مرکزی شاہراہ پر ٹریفک بھی بند ہے۔
پولیس کرم میں تشدد کو روکنے کے لیے باقاعدگی سے جدوجہد کرتی رہی ہے، جو 2018 میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے تک نیم خود مختار وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کا حصہ تھا۔
گذشتہ ماہ کرم میں فرقہ وارانہ جھڑپ میں تین خواتین اور دو بچوں سمیت کم از کم 16 افراد مارے گئے تھے۔
اس سے قبل جولائی اور ستمبر میں ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد قتل ہوئے تھے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ جولائی اور اکتوبر کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 79 افراد جان سے گئے۔
پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور اور ملک کے تجارتی مرکز کراچی میں جمعے کے روز سینکڑوں افراد نے تشدد کے خلاف مظاہرے کیے۔