خیبرپختونخوا کی حکومت کا ایک طرف تو یہ کہنا ہے کہ کرم کشیدگی کم کرنے پر اہم پیشرفت ہوئی ہے، وہیں اس علاقے میں تین دن سے جاری جھڑپوں میں اب تک مقامی حکام کے مطابق 82 افراد جان سے جا چکے ہیں جبکہ 156 زخمی ہیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے ایک بیان میں اتوار کو کہا ہے کہ کرم سے متعلق جلد اچھی خبریں ملنے کا امکان ہے۔ ’مثبت پیشرفت کے بارے میں جلد آگاہ کردوں گا۔‘
تشدد کا تازہ ترین سلسلہ جمعرات کو اس وقت شروع ہوا جب پولیس کی نگرانی میں سفر کرنے والوں کے دو الگ الگ قافلوں پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا جس میں کم از کم 43 افراد جان کھو بیٹھے۔ اس کے بعد مقامی افراد کے درمیان دو روز سے مسلح لڑائی جاری ہے۔
بیرسٹر ڈاکٹر سیف کے مطابق عمائدین اور فریقین کے ساتھ مثبت پیشرفت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ کو تمام پیشرفت سے وقتاً فوقتاً آگاہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ حکومتی جرگے کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔‘
گذشتہ رات سے بگن، علی زئی بالشخیل، خار کلے، مقبل اور کنج علیزئی میں جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔
مختلف علاقوں میں مکانات اور دکانوں کے جلائے جانے کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔
صوبائی ترجمان نے سرکاری ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی تردید ہے۔
مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 21، 22 اور 23 نومبر کو ہونے والی جھڑپوں اور قافلوں پر حملوں کے نتیجے میں 82 افراد قتل اور 156 زخمی ہوئے ہیں۔
ہفتے کو تقریباً 300 خاندان وہاں سے فرار ہو گئے تھے کیونکہ ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کا تبادلہ رات بھر جاری رہا تاہم اتوار کی صبح تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
مقامی انتظامیہ کے عہدیدار نے بتایا کہ کرم میں موبائل نیٹ ورک بدستور معطل ہے اور مرکزی شاہراہ پر ٹریفک بھی بند ہے۔
پولیس کرم میں تشدد کو روکنے کے لیے باقاعدگی سے جدوجہد کرتی رہی ہے، جو 2018 میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے تک نیم خود مختار وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کا حصہ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبائی حکومت کے ایک وفد نے ہفتہ کو شیعہ برادری سے بات چیت کی تھی اور اتوار کو سنی برادری سے ملاقات کرنے کا ارادہ ہے۔
صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم آفریدی نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ آج ہماری ترجیح فریقین کے درمیان جنگ بندی ہے۔ ’ایک بار جب یہ مقصد حاصل ہو جائے گا تو ہم بنیادی مسائل کو حل کرنا شروع کر سکتے ہیں۔‘
گذزشتہ ماہ کرم میں فرقہ وارانہ جھڑپ میں تین خواتین اور دو بچوں سمیت کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل جولائی اور ستمبر میں ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہی ختم ہوئی تھیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ جولائی اور اکتوبر کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 79 افراد جان سے گئے ہوئے۔
پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور اور ملک کے تجارتی مرکز کراچی میں جمعے کے روز سینکڑوں افراد نے تشدد کے خلاف مظاہرے کیے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر صوبائی وزیر قانون افتاب عالم کی سربراہی میں جرگہ کرم میں ہے جو حالات پر قابو پانے اور فائر بندی کی کوشش کر رہا ہے۔
جرگے میں آئی جی پولیس، چیف سیکرٹری، کمشنر کوہاٹ اور دیگر سرکاری افسران موجود ہے۔ بیرسٹر سیف کے مطابق جرگے کا بنیادی مقصد فریقین کے مابین فائر بندی اور امن قائم کرنا ہے۔