دریائے سواں کبھی راولپنڈی اسلام آباد کے باہر بہتا تھا مگر آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے اب یہ جڑواں شہروں کے درمیان آ گیا ہے۔ دریائے سواں کے بارے میں ایکس کے ایک صارف نے بڑی دلچسپ پوسٹ لگائی ہے۔
سات مارچ 2024 کو لگائی جانے والی اس پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دریائے سواں کے کنارے ایک شادی ہال کی تعمیر میں کھدائیوں کے دوران سنگِ مرمر کا مجسمہ ملا ہے جو دریائی دیوتا (river god) کا ہے۔
اس پوسٹ میں چار تصاویر بھی لگائی گئی ہیں، جن میں سے ایک تصویر کو کوئی شخص ہاتھ لگا کر چیک کر رہا ہے اور دوسرا شخص شلوار قمیض اور کوہاٹی چپل پہنے ساتھ کھڑا ہے۔ تیسری تصویر ایک سنگِ مرمر کے ٹکڑے کی ہے جو لگتا ہے اس چبوترے کا حصہ تھا جس پر یہ مجسمہ نصب تھا اور چوتھی تصویر کسی بچے کے مجسمے کا سر ہے جو اس بڑے مجسمے کے ساتھ تھا۔
یہ ایکس صارف کوئی عام صارف نہیں بلکہ اسلام آباد کے ایک سینیئر صحافی ڈاکٹر عبد الودود قریشی ہیں۔ جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے رابطہ کر کے ان تصاویر کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ تصاویر انہیں ایک دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی ہیں۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ مجسمہ نوادرات کی سمگلنگ کرنے والے لاکھوں ڈالرز میں خرید کر لے جا چکے ہیں۔ تصاویر اصلی ہیں باقی تحقیق آپ خود کر لیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب گوگل پکسل سرچ پر یہ تصاویر اپ لوڈ کیں تو ان کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملا اس کا مطلب ہے کہ یہ تصاویر اس سے پہلے کہیں اپ لوڈ نہیں ہوئیں اور یہ تازہ ہیں۔ تاہم یہ واقعہ کب کا ہے اور کس جگہ کا ہے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔
تصویر کے ساتھ گیلی مٹی اور گھاس پھوس دیکھی جا سکتی ہے جس سے یہ قیاس بھی کیا جا سکتا ہے کہ یہ تصویریں ان اوّلین لوگوں کی ہیں جو مجسمے کی دریافت کے بعد وہاں موجود تھے۔
دریائے سواں اڑھائی سو کلومیٹر طویل ہے اور مری سے نکل کر مکھڈ کے مقام پر دریائے سندھ میں جا ملتا ہے۔ دریا کے ساتھ کناروں پر حالیہ کھدائیاں جہاں ہو رہی ہیں اس کے ایک طرف ڈی ایچ اے ہے اور دوسری جانب بحریہ ٹاؤن، دونوں اداروں کے کئی تعمیراتی منصوبے دریا کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ اگر اس مجسمے کی دریافت میں کوئی سچائی ہے تو یہ اسلام آباد ایکسپریس وے کاک پل سے جی ٹی روڈ کے دوسری طرف جہاں ڈی ایچ اے ون اور بحریہ ٹاؤن کے فیز سیون کے اطراف میں ہوئی ہو گی۔
اس مجسمے کی دریافت میں نیا کیا ہے؟
ڈیپارٹمنٹ آف میوزیم اینڈ آرکیالوجی حکومت پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالغفور لون کو جب انڈپینڈنٹ اردو نے مبینہ طور پر دریائے سواں سے برآمد ہونے والے اس نایاب مجسمے کی تصاویر بھجوائیں تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایسی کوئی مصدقہ معلومات تو نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ان تصاویر سے منسوب باتوں کی تصدیق کر سکتے ہیں، تاہم اڑتی اڑٹی کچھ باتیں ان تک گذشتہ ہفتوں سے پہنچ رہی ہیں جن کی تصدیق کے لیے وہ حکومت کا ایک مشن جلد متعلقہ علاقے میں بھیج رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’ایسی اطلاعات کو ہم اس پس منظر میں بھی دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ نئے مجسمے بنوا کر شوشہ چھوڑتے ہیں کہ انہیں یہ کھدائی میں ملے ہیں تاکہ ان کی وقعت بڑھ جائے اور ان کے اچھے دام مل سکیں۔‘
ڈاکٹر عبدالغفور لون نے مزید بتایا کہ ’پاکستان میں یونانی دور کا سنگ مرمر سے بنا ہوا کوئی مجسمہ اس سے پہلے کہیں سے برآمد نہیں ہوا۔ یہاں گندھارا آرٹ میں سارے مجسمے مقامی پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ یہ مجسمے زیادہ تر بدھا کے ہیں یا بدھ مت سے متعلق ہیں۔ جبکہ مبینہ طور پر دریائی دیوتا کا مجسمہ تو آٹھ دس فٹ بڑا ہے اس کا مطلب ہے کہ ا س کے ساتھ مکمل چبوترہ بھی ہونا چاہیے جہاں یہ نصب تھا۔ یہ مجسمہ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور مکمل طور پر یونانی اور رومن ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’گندھارا کے فن مجسمہ سازی پر یونانی اور رومن اثرات تو ہیں مگر مکمل طو ر پر کسی یونانی مجسمے کا ملنا ایک انوکھی چیز ہو سکتا ہے۔ کیونکہ دریائی دیوتا سے منسوب اس مجسمے کے ساتھ جو روایت جڑی ہوئی ہے اس کا تعلق بھی اس خطے سے نہیں ہے۔
’اگر یہ مجسمہ واقعی کہیں نکلا ہے اور ہمیں مل جاتا ہے تو پھر پاکستان میں آثارِ قدیمہ کی تاریخ کو ایک نیا حوالہ مل جا سکتا ہے اور ماہرین کے سامنے وہ سوالات بھی آ کھڑے ہوں گے جو اس سے پہلے کے منظر نامے میں کہیں موجود نہیں ہیں۔
’مثال کے طور پر یہ قیاس بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب یونانی یہاں کے حکمران تھے تو ان کا پایۂ تخت ٹیکسلا نہیں بلکہ اسلام آباد راولپنڈی کے آس پاس کہیں تھا۔ پھر یہاں اور یونانی عمارات بھی ہونی چاہییں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کراچی میوزیم میں دریائی دیوتا کا ایک چھوٹا مجسمہ موجود ہے جو کسی کھدائی سے نہیں ملا تھا بلکہ سر جان مارشل کو کسی نے تحفے میں دیا تھا۔ یہ مجسمہ پاکستان نے چین میں ایک نمائش میں بھیجا ہوا تھا اور حال ہی میں واپس آیا ہے۔‘
دریائی دیوتا کا مجسمہ دراصل کیا ہے؟
دریائی دیوتا کا پہلا مجسمہ مشہور یونانی مجسمہ ساز فیڈیئس Pheidias نے پانچویں صدی قبل مسیح میں بنایا تھا جس میں ایک دیوتا کو دریا میں تیرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کے بعد ایسے مجسمے ایک روایت کے طور پر تسلسل کے ساتھ ملتے ہیں۔ جن سے یونانی اساطیر جڑی ہوئی ہیں۔
دریائی دیوتا کا آرٹ قدیم یونانی اور رومی ثقافتوں میں بہت مقبول تھا۔ یہ مجسمے نہ صرف فنی خوبصورتی کے لیے مشہور ہیں بلکہ وہ قدیم دنیا کے مذہبی اور ثقافتی تصورات کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ یہ مجسمے جو کہ آرام دہ حالت میں لیٹے ہوئے ہوتے ہیں اور اکثر پانی کی علامت کے طور پر ان کے ساتھ ایک گھڑا یا اس سے ملتی جلتی دیگر اشیا بھی رکھی ہوتی ہیں۔
ان مجسموں کا مقصد دریاؤں میں پانی کو رواں دواں رکھنا اور سیلابوں سے حفاظت بھی ہے۔ چونکہ قدیم شہر دریاؤں کے کنارے ہی ہوتے تھے تاکہ ان کی فصلوں اور مویشیوں کے لیے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ دریائی دیوتا کو نصب کر کے ایک طرح سے انسان مطمئن ہو جاتا تھا کہ اب دیوتا کی وجہ سے دریا ان کا مطیع رہے گا اور انہیں کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی پہنچائے گا۔
دریائے سواں کی قدامت اور یونانی اثر
دریائے سواں کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کے پروفیسر مائیکل ڈی پیٹرا گالیہ نے دریائے سواں کو پیلیو لتھک کلچر سے منسوب کیا ہے جو 22 لاکھ سال پہلے کا زمانہ ہے اور جسے عام فہم زبان میں پتھر کا پہلا دور کہا جا تا ہے۔ یہاں سے پتھر کے اوزار بھی ملے ہیں جو اسلام آباد میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں رکھے گئے ہیں۔
سکندر اعظم یہاں سے 326 ق م میں گزرا تھا تاہم اس کی آمد ایک طوفان کی طرح تھی جو آیا اور گزر گیا لیکن یونانی اپنا اقتدار قائم نہیں کر سکے۔ ’ٹیکسلا ٹائم‘ کے مصنف مالک اشتر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گندھارا میں باقاعدہ یونانی عہد 198ق م سے شروع ہوتا ہے جب باختری یہاں کے حکمران بنے پھر ساقا قبائل آ گئے۔ اس طرح 25 تک یہ علاقہ تقریباً223 سال یونانیوں کے زیر اثر رہا۔ ٹیکسلا کا سرکپ کا شہر بھی یونانیوں کا ہی بسایا ہوا تھا۔
یونانیوں کا سب سے بڑا اثر یہاں فن مجسمہ سازی کی صورت میں سامنے آیا۔ ٹیکسلا میں یونانیوں کے سورج دیوتا اور محبت کی دیوی کے مجسمے ملے ہیں جو بدھا کے مجسمے بننے سے بہت پہلے کے ہیں البتہ سنگ مرمر کا بنا ہوا کوئی مجسمہ ٹیکسلا سے نہیں ملا اور نہ ہی دریائی دیوتا کا کوئی تصور ٹیکسلا میں اس سے پہلے موجود ہے۔
سکندر اعظم کی آمد کے وقت چوہان راجپوت راولپنڈی کے حکمران تھے اور اس وقت اس کو آدڑہ کہتے تھے جو آج بھی ایک محلے کی صورت میں موجود ہے۔ اس کے بعد بھٹیوں، جنجوعوں اور آخر میں یہ علاقہ گکھڑوں کے پاس رہا۔ چوہان راجپوتوں کے بعد راولپنڈی کا حکمران راجہ رسالو ملتا ہے جو بھٹی قبیلے کا سردار تھا جس کا عہد دوسری صدی عیسوی کا ہے۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ چوہانوں اور بھٹیوں کے درمیان پانچ سو سال کا جو عرصہ ہے اس میں وہ دور جب گندھارا پر یونانیوں کی حکومت تھی تب راولپنڈی کے حکمران نہ صرف یونانی تھے بلکہ ان کا پائہ تخت بھی یہیں کہیں تھا۔
تاہم اس قیاس کا انحصار مبینہ طور پر اس مجسمے کی دریافت سے جڑا ہوا ہے جس میں کتنی سچائی ہے اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں محکمہ آثار قدیمہ کی تحقیقات سے ہو گا۔