2011 میں امریکی شہر نیویارک میں مشہور نیلامی کی تنظیم کرسٹیز میں بدھا کا قدیم مجسمہ نیلامی کے لیے پیش کیا گیا۔
یہ مجسمہ ایک شخص کی جانب سے آیا تھا جو نجی طور آثار قدیمہ کے نوادرات جمع کرنے کا شوقین تھا۔
اس شخص نے یہ مجسمہ جرمنی میں 1981 میں حاصل کیا تھا۔
مجسمے کی نیلامی سے قبل پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھر نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے بھرپور کوشش کی کہ اس مجسمے کی نیلامی کو روکا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ نہیں تھا۔
نتیجتاً کرسٹیز میں ہونے والی نیلامی میں یہ مجسمہ 45 لاکھ ڈالر میں نیلام ہوا۔ اس کے علاوہ گندھارا کے 29 قدیم نوادرات بھی نیلام ہوئے۔
پاکستان کو آثار قدیمہ کی سمگلنگ کا سامنا رہا ہے اور شاید حکومت کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہ ہو جو بتا سکے کہ کتنے نوادرات چوری ہوئے یا ملک سے باہر سمگل کیے گئے۔
پاکستان میں آثار قدیمہ کے کئی مقامات ہیں جیسے مہرگڑھ، وادی سندھ کی تہذیب اور گندھارا۔
یہ آثار قدیمہ آٹھ ہزار سال پیچھے جاتے ہیں اور صرف تین بڑے مذاہب یعنی بدھ، سکھ اور ہندو ازم کے پیروکاروں کے لیے مذہبی اہمیت نہیں رکھتے بلکہ قبل از تاریخ مذاہب میں بھی اہمیت رکھتے تھے۔
لیکن یہی نوادرات جب ایک بار غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر لے جائے جاتے ہیں اور جب یہ کسی ملک میں درآمد کیے جاتے ہیں تو یہ ممنوع نہیں رہتے، کیونکہ سمگلرز ان نوادرات کے جعلی کاغذات بنا لیتے ہیں اور یہی دستاویزات عالمی نیلام گھر تسلیم کر لیتے ہیں۔
عالمی نیلام گھر ان نوادارت کے مالکان کے بارے میں زیادہ تفصیلات مہیا نہیں کرتے اور وہ ادارے کی پالیسی کے پیچھے چھپتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارے یونیسکو نے بلوچستان میں واقع مہر گڑھ کو عارضی طور پر عالمی ورثے کی فہرست میں رکھا ہوا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اس قدیم سائٹ کو مستقل طور پر یونیسکو کی ورثے کی فہرست میں لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی۔
اگر حکومت مہر گڑھ کے کیس کو سنجیدگی سے یونیسکو کے سامنے پیش کرتی تو کوئی شک نہیں تھا کہ یونیسکو اس کو عالمی ورثے کی فہرست میں نہ ڈالتا۔
مہر گڑھ کی تاریخی اہمیت کو پاکستان کتنی اہمیت دیتا ہے اس بات سے ظاہر ہے کہ پاکستان کی آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والی سرکاری ویب سائٹ پر مہر گڑھ کا ذکر نہیں۔ ۔
بلوچی زبان میں اسے ’دھمب‘ کہا جاتا ہے۔ قدیم قصبے یا جگہیں جو وقت گزرنے کے بعد دب گئی ہوں۔ مہرگڑھ کی ایک بہت دلچسپ کہانی ہے۔
فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ بلوچستان کے سبی ضلع میں واقع پیراک میں کھدائی کا کام کر رہے تھے جب مقامی افراد ان کے پاس آئے اور کہا کہ ان کے علاقے میں بھی دھمب حال ہی میں بارشوں میں دریافت ہوا ہے۔
جب یہ فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ مہر گڑھ پہنچے تو اس دھمب کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
اسی وقت انھوں نے فیصلہ کیا کہ سبی میں کھدائی کا کام روک کر مہر گڑھ کی کھدائی کا کام شروع کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پہلے ہی منظم چوریوں اور سمگلنگ کے باعث بہت سارے نوادرات کھو دیے ہیں۔
ان نوادرات کے کھو جانے کے باعث ملک کو نہ صرف بہت زیادہ مالی نقصان ہوا بلکہ ماہرین آثار قدیمہ کے ہاتھ سے موقع چلا گیا کہ وہ ان نوادارت کا مطالعہ کر کے بتا سکتے کہ یہ لوگ کس طرح زندگی بسر کرتے تھے۔
ان نوادرات کی چوری یا سمگلنگ اس قدر آسان کیسے ہو سکتی ہے۔ ایک عالمی تنظیم میں کام کرتے وقت ایک انگریز ٹیکسلا کی سیر کے لیے گیا۔ واپسی پر وہ وہاں سے بہت سارے مجسمے اور دیگر اشیا لایا۔
یہ مجسمے اور اشیا خریدنے کے دو سال بعد جب وہ واپس اپنے ملک جا رہا تھا تو اس سے کہا گیا کہ وہ ان مجسموں اور اشیا کو اس وقت تک ملک سے باہر نہیں لے کر جا سکتا جب تک محکمہ آثار قدیمہ کے لوگ ان کا معائنہ نہیں کر لیتے اور اس بات کی تصدیق نہیں کر لیتے کہ یہ اصل نہیں بلکہ اصل نوادرات کی نقل ہیں۔
لیکن شاید یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو سمگلنگ کے اس گروہ کا حصہ نہیں۔
ٹیکسلا کو چھوڑیں مہر گڑھ لے لیجیے، ژوب سے لے کر گوادر تک آثار قدیمہ موجود ہیں اور بجائے اس کے کہ حکومت ان جگہوں کی حفاظت کرے اور آثار قدیمہ کی کھدائی کا کام کرے یہاں پر نوادرات کی چوری کے لیے غیر قانونی کھدائی کی جاتی ہے۔