ماہرین سمجھتے ہیں کہ ہر دو سے ڈھائی ہزار سال میں مون سون کا پیٹرن بدلتا ہے جس کی وجہ سے جو خطہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے وہ وادی سندھ ہے۔
ہزاروں سال پہلے کی وادی سواں، آٹھ ہزار سال پہلے کا مہر گڑھ، دریائے سندھ کے کنارے پر پانچ ہزار سال پہلے کے موہنجو داڑو اور ہڑپا، ڈھائی ہزار سال پہلے کا گندھارا، ان سب کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر مون سون کا تھا۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور سورج کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا براہ ِ راست اثر مون سون پر ہوتا ہے۔ مون سون کا گھٹنا یا بڑھنا ہر دو صورتوں میں وادی سندھ کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔
ہمالیہ میں دنیا کے بڑے گلیشئرز ہیں جو عین ان دنوں میں پگھلتے ہیں جب مون سون کا موسم شروع ہوتا ہے جس سے پانی اتنا زیادہ نکلتا ہے کہ آگے کی آبادیاں ملیا میٹ ہو جاتی ہیں۔
اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بارشیں رک جاتی ہیں اور قحط شروع ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں بھی زندگی یہاں پر یا تو ختم ہو جاتی ہے یا بہت حد تک سکڑ جاتی ہے۔
وجہ سورج ہو، زمین کی گردش کا سائیکل ہو یا مشینی تہذیب کی لاپرواہی، وادی سندھ ایک بار پھر بڑی موسمیاتی تباہی کا شکار ہے، جس میں پھٹتے گلیشئرز، غیر متوقع کلاوڈ برسٹ، بے لگام آبادی اور حکمرانوں کی بے حسی وادی سندھ کو ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر دھکیل رہی ہے۔
2010 اور 2022 کے تباہ کن سیلاب اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ یہ سلسلہ آئندہ کئی دہائیوں تک چلے گا۔
یا سیلاب آئیں گے یا قحط سالی، ہر دو چار سال بعد ہمیں کسی نہ کسی موسمیاتی المیے کا سامنا ہو گا۔ اس کا حل کیا ہے؟
پاکستان اس جانب بالکل توجہ نہیں دے رہا۔ اس کی دگرگوں معیشت کو موسمیاتی تبدیلیاں مزید تباہ کن بنا رہی ہیں اور اسے ہر سال 14 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
فوڈ سکیورٹی اس کے لیے ایک بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ ارسا کا کہنا ہے کہ پاکستان ہر سال 22 ارب ڈالر کا پانی سمندر برد کر دیتا ہے۔
ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا بھی اس سے ملتی جلتی صورت حال سے دوچار ہے اس کا حل اس نے یوں نکالا ہے کہ وہ دریاؤں کا رخ موڑ کر نئے ڈیم بنا رہا ہے۔
2016 سے انڈیا میں 30 مقامات پر دریاؤں کا رخ موڑ کرپانی ذخیرہ کرنے کے ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے آبی ماہرین کی تمام تر توجہ ابھی اس بات پر ہے کہ انڈیا ایسا کیوں کر رہا ہے وہ یہ نہیں سوچ رہے کہ انہیں بھی ایسا کرنا ہو گا۔
انجنیئر انعام الرحمٰن کینیڈا میں مقیم ہیں جو پاور الیکڑیکل اور ہائیڈرو انجنیئر نگ کے شعبے سے منسلک ہیں۔
انہوں نے وہاں بیٹھ کر ایسا ایک منصوبہ پاکستان کے لیے بنایا ہے جسے سواں ڈیم کا نام دیا گیا ہے۔
اگرچہ اس منصوبے کی پہلی تجویز تو عالمی بنک نے 1955 میں اپنے ایک مطالعہ میں دی تھی جس کے مطابق 8.5 ملین ایکڑ فٹ پانی یہاں ذخیرہ ہو سکتا ہے۔
جبکہ انجینیئر انعام الرحمٰن نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اندازہ لگایا ہے کہ یہاں 40 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے جبکہ چین کا تھری گارجز ڈیم جو دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے وہاں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 32 ملین ایکڑ فٹ ہے۔
تربیلا کی صلاحیت 5.8 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ گویا یہاں تربیلا سے سات گنا زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔
یہ نئی ٹیکنالوجی اب آپ کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ اپ سیٹلائٹ کی مدد سے پانی ذخیرہ کرنے والی جگہوں کی نہ صرف نشاندہی کر سکتے ہیں بلکہ ان کی پاور جنریشن کی صلا حیت کو بھی بہت کم وقت میں نہائت درستگی سے ناپ سکتے ہیں۔ اس طرح ماضی کے مقابلے میں اب یہ کام بہت آسان ہو گیا ہے۔
سواں ڈیم کیا ہے؟
سواں کی وادی کا شمار دنیا کی ان چند جگہوں میں ہوتا ہے جہاں 20 لاکھ سال پہلے کے انسان کے شواہد بھی ملتے ہیں۔
پچھلے برفانی دور میں یہاں کافی بڑا دریا گزرتا تھا جو گلیشیئر پگھلنے کے بعد اب سکڑ کر ایک نالے کی صورت ہی باقی رہ گیا ہے۔
اس دریا پرڈھوک پٹھان جو پنڈی گھیب اور تلہ گنگ کے درمیان ایک قصبہ ہے وہاں پر ایک بند باندھ کر کالا باغ سے آٹھ گنا اور خطےکا سب سے بڑا ڈیم بنایا جا سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا س کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟
انجینیئر انعام الرحمٰن نے اس کے لیے تربیلا ڈیم سے غازی بروتھا طرز کی ایک نہر نکالنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
یہ نہر50.3 کلومیٹر طویل ہو گی جو جھنگ باہتر میں دریائے ہرو کے مقام پر ایک چھوٹے ذخیرہ پر آئے گی جہاں سے پانی میں آنے والی مٹی کو دریائے ہرو کی طرف موڑا جائے گا جس سے آگے کی طرف زرخیز زمینوں کا رقبہ بڑھ جائے گا اور تربیلا ڈیم میں جمع ہونے والی مٹی کا بھی اخراج ہو سکے گا اور اس کی لائف جو مسلسل کم ہو کر 30 سال رہ گئی ہے وہ بھی بڑھ جائے گی۔
ساتھ ہی اس کی وہ ٹربائنز جو سلٹ کی وجہ سے کام نہیں کر رہیں انہیں بھی سواں ڈیم میں نصب کیا جا سکے گا۔
اس نہر پر 2018 میں لاگت کا تخمینہ 3.3 ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو کہ تربیلا ڈیم کے ڈی سلٹنگ منصوبے کے متبادل ڈیزائن کی وجہ سے مفید آپشن ہے۔
چینل وہاں سے آتی ہوئی سواں ڈیم میں گرے گی۔ اس نہر کی تعمیر سے راولپنڈی اسلام آباد میں بھی پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا اور سواں ڈیم کا آخری دھانہ چونکہ اڈیالہ گاؤں تک آئے گا اس لیے یہاں زیر زمین پانی کا لیول بھی بلند ہو جائے گا۔
اس ڈیم پر لاگت بھی باقیوں سے بہت کم آئے گی صرف پانچ سال کے عرصے میں 12 ارب ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ مکمل ہو سکتا ہے۔
ڈیم اور نہر کی کل لاگت کا تخمینہ چھ ارب ڈالر ہے لیکن انفراسٹرکچر ایڈجسٹمنٹ، پاور ٹربائنز، ہیڈ ریگولیشن، ڈی سلٹنگ فیچر اورکمانڈ لنکنگ کے ساتھ تقریبا 12 ارب ڈالر تک بڑھ جاتا ہے۔
یہ ڈیم 1240مربع کلومیٹر پر مشتمل ہو گا جس میں سے 70 فیصد رقبہ موسمی کاشت کے لیے دستیاب ہو گا کیونکہ گندم کی کاشت کے وقت اس کا 70 فیصد علاقہ پانی سے خالی ہو چکا ہو گا جس میں گندم کی بمپر فصل ہو گی۔
اس ڈیم سے جو علاقے ڈوب جائیں گے ان میں چکری سب سے بڑا قصبہ ہے اور باقی چھوٹے دیہات ہوں گے۔
لاہور اسلام آباد موٹر وے کا 85 کلومیٹر علاقہ بھی زیر آب آئے گا جس سے موٹر وے کا رخ بھی موڑنا پڑے گا کیونکہ جب موٹر وے بنائی گئی اس وقت بھی یہ جگہ مجوزہ ڈیم کے لیے مختص تھی مگر اس وقت کے حکام نے مجرمانہ چشم پوشی اختیار کی۔
کیا دریائے سندھ میں اتنا پانی ہے؟
آئی ایم ایف نے 2015 کی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ 2025 تک پاکستان کو 83 ملین ایکڑ فٹ پانی کی کمی کا سامنا ہو گا۔ ان میں سے دیامر بھاشا، کالا باغ، اکھوڑی اور کرم تنگی ڈیم کی مجموعی صلاحت 19 ملین ایکڑ فٹ بنتی ہے جبکہ اکیلے سواں ڈیم کی 38ملین ایکڑ فٹ ہے۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا دریائے سندھ میں اتنا پانی موجود ہے کہ اس سے سواں ڈیم بھر سکتا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انجنیئرانعام الرحمٰن نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کے دریاؤں میں سالانہ 142ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے جس میں سے صرف تربیلا کے مقام پر مون سون کے 100 دنوں میں 42 سے 63 ملین ایکڑ فٹ خارج ہوتا ہے۔
اسی پانی میں سے ہم 38 ملین ایکڑ فٹ سواں میں منتقل کر دیں گے جو آگے پھر مکھڈ کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’پچھلے سال سیلاب کے دنوں میں 60 اور 2010 کے سیلاب میں 93 ملین ایکڑ فٹ پانی ہم نے سمندر کی نذر کیا ہے۔ جب سواں ڈیم بن جائے گا تو آگے کا ملک سیلابوں سے محفوظ ہو جائے گا۔ تربیلا ڈیم میں سلٹنگ کی وجہ سے اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 40 فیصد کم ہو چکی ہے اس لیے سواں ڈیم کو تربیلا کی ایکسٹینشن بھی کہا جا سکتا ہے۔‘
سواں ڈیم معیشت کے لیے کتنا سود مند؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اگر جنگی بنیادوں پر مزید ڈیم نہ بنائے تو اسے مستقبل قریب میں خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہو گا۔
شاید وہ دور شروع ہو چکا ہے کیونکہ صرف ایک سال کے دوران پاکستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ ہو چکا ہے۔
جس کی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے مطابق مارکیٹ میں مطلوبہ اشیا کی کمی ہے۔ سواں ڈیم بننے سے جہاں پانچ ہزار میگا واٹ سستی بجلی پیدا ہو گی وہاں 24ملین ایکڑ رقبہ زراعت کے قابل ہو جائے گا۔
صحرائے تھر، تھل، کچھی، جنوبی خیبر پختونخواہ اور چولستان مکمل سرسبز و شاداب ہو جائیں گے۔ گویا پاکستان کے مجموعی قابل کاشت رقبے میں ایک تہائی اضافہ ہو جائے گا۔
1988 کے ایک تخمینے کے مطابق سواں ڈیم سے معیشت کو سالانہ 70 ارب ڈالر کا فائدہ ہو گا مگر اب ایک حالیہ جائزے میں یہ رقم بڑھ کر سالانہ سو ارب ڈالر ہو چکی ہے۔
انجنیئر انعام الرحمٰن نے بتایا کہ وہ ’اس شاندار منصوبے پر پلاننگ کمیشن اور واپڈا وغیرہ کو کئی بار بریفنگ دے چکے ہیں مگر ان کے بابے پرانی ٹیکنالوجی کے عادی ہیں انہیں معلوم ہی نہیں کہ زمانے کے تقاضے کتنے بدل چکے ہیں اورپانی سے جڑے سب بڑے مسائل سے کیسے یکمشت نمٹا جاسکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی پی دور، نواز دور اور پھر عمران خان دور میں پاکستان جا کر متعدد وزرا سے ملا انہیں بریف کیا کہ ایک بڑا منصوبہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ہو سکتا ہے۔ مگر کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔
ہر سال سیلاب آتا ہے ہمیں ڈبو کر چلا جاتا ہے مگر کوئی نہیں سوچتا کہ جو پانی ہمارا نقصان کر رہا ہے وہ ہمارا فائدہ بھی کر سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور سیلاب متاثرین کے نام پر سال دنیا بھر سے بھیک مانگنے کا بہانہ کب تک چل سکے گا؟ اگر اپنے وسائل یا عالمی موسمیاتی امداد کے ایک بار درست استعمال سے مسئلہ مستقل طور پر حل ہو سکتا ہے تودیر کس بات کی ہے؟‘