سندھ: کیا ڈاکو بچوں کا اغوا ’جلد تاوان حاصل کرنے‘ کے لیے کرتے ہیں؟

پولیس کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب مسلح ڈاکو دیوار پھلانگ کر محمد اکرم آرائیں کے گھر میں داخل ہوئے اور اسلحے کے زور پر ساڑھے چھ سالہ بچے کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔

24 فروری 2024 کی اس تصویر میں کراچی میں پولیس اہلکار ایک سیاسی ریلی کے موقعے پر تعینات ہیں (اے ایف پی)

سندھ کے ضلع سکھر میں پنو عاقل شہر کے رہائشی محمد اکرم آرائیں کے گھر میں پولیس کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب مسلح ڈاکو دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے اور اسلحے کے زور پر ساڑھے چھ سالہ بچے کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے، جس کے خلاف شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے سٹی تھانے کے سامنے دھرنا دیا۔

محمد اکرم آرائیں کے قریبی رشتہ دار محمد عارف آرائیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ رات دیر گئے چار پانچ مسلح ڈاکو محمد اکرم کے گھر میں داخل ہوکر موبائل فون، زیورات اور نقد رقم لوٹنے کے بعد بچے کو اپنے ساتھ لے گئے۔

محمد عارف آرائیں کے مطابق: ’ہم نے واقعے کی ابتدائی رپورٹ مقامی تھانے میں درج کروائی ہے جبکہ ڈاکوؤں کی جانب سے تاوان کے لیے کوئی فون نہیں آیا، کیوں کہ گھر کے تمام افراد کے موبائل فون بھی ڈاکو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔‘

پنو عاقل تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) منظور چانڈیو نے ڈاکوؤں کے ہاتھوں بچے کے اغوا کی تصدیق کی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں منظور چانڈیو نے بتایا: ’بچے کو گھر سے اغوا کرنے والے ڈاکوؤں کے پاس پستول تھے، جس سے لگتا ہے کہ یہ دریائے سندھ کے کچے کے ڈاکو نہیں ہیں، کیونکہ کچے کے ڈاکو بھاری ہتھیاروں کے ساتھ واردات کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ڈاکو مغوی بچے کو کچے کے ڈاکوؤں کو فروخت کر دیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’پولیس کو جیسے ہی اطلاع ملی ہم نے ہر طرف ناکہ بندی کر دی اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کرلی ہے۔ جلد ہی کارروائی کرکے مغوی بچے کو آزاد کروائیں گے۔‘

چند روز قبل بھی سوشل میڈیا پر ایک کم عمر بچے پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ 21 سیکنڈ دورانیے کی ویڈیو میں شلوار قمیص میں ملبوس ایک بچے کو زنجیر اور دو تالوں سے بندھا روتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

یہ بچہ کندھ کوٹ کے لنک روڈ پر ملیر کے علاقے میں واقع پٹھان گاؤں کے رہائشی نور اللہ خان کا بیٹا ایاز خان تھا، جسے ڈاکوؤں نے ایک مہینہ قبل اغوا کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے بچے کو گھوٹکی سے بازیاب کروایا تھا۔

کچھ عرصہ قبل کندھ کوٹ سے ہی ڈاکوؤں نے چھ سالہ بچے فرحان سومرو کو بھی تاوان کے لیے اغوا کیا تھا۔

حالیہ مہینوں میں شمالی سندھ میں ڈاکوؤں کی جانب سے کمسن بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے سکھر کے صحافی ممتاز بخاری سے گفتگو کی، جو کچے کے ڈاکوؤں کی خبروں کی کوریج کرتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکوؤں کی جانب سے کمسن بچوں کو اغوا کرنا نیا ٹرینڈ نہیں ہے، بلکہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں بھی ڈاکو کمسن بچوں کو اغوا کرتے تھے مگر اب سوشل میڈیا کے دور میں ہر واردات بروقت رپورٹ ہوجاتی ہے، اس لیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی نیا ٹرینڈ ہے اور اب بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ممتاز بخاری نے کہا: ’ڈاکوؤں کے لیے مغوی کمسن بچوں کو سنبھالنا مشکل ہے، مگر اس کے باجود وہ بچوں کو اس لیے اغوا کرتے ہیں کہ انہیں مغوی بچوں کے عوض جلد تاوان کی رقم مل جاتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’پہلے پولیس ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے کمسن بچوں کو اغوا کے بجائے گمشدہ ظاہر کرتی تھی مگر اب سوشل میڈیا کے دور میں پولیس کو معلوم ہونے سے قبل ہی تمام تفیصلات عام ہو جاتی ہیں، اس لیے اب ایسے واقعات کو چھپانا ممکن نہیں رہا۔‘

سندھ کے مقامی میڈیا کے مطابق اس وقت شمالی سندھ میں 14 بچے مغوی اور ڈاکوؤں کی تحویل میں ہیں۔

تاہم سندھ پولیس کے ترجمان سید سعد نے ان رپورٹس کی ترید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ بچے اغوا ضرور ہوئے ہیں، مگر ان کی تعداد اتنی نہیں ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سید سعد نے کہا: ’اغوا ہونے والوں کی درست تعداد بتانا اس لیے ممکن نہیں کہ مغوی بازیاب بھی ہو رہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی گئی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’شمالی سندھ میں اغوا ہونے والوں میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو یا تو ’ہنی ٹریپ‘ (فون پر خواتین کی آواز میں لوگوں کو بلا کر اغوا کرنے) یا ڈاکوؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر سستی اشیا بیچنے کے جھانسے میں خود چل کر ڈاکوؤں کے پاس جاتے ہیں اور اغوا ہوجاتے ہیں۔‘

بقول سید سعد: ’ہنی ٹریپ کے ذریعے اغوا ہونے والوں میں ایک وفاقی ادارے کے 18 گریڈ کے افسر بھی شامل ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’سندھ پولیس نے گذشتہ صرف چار مہینوں کے دوران مختلف صوبوں سے فون پر بات کرنی والی ’خاتون‘ سے ملنے یا سستی اشیا لینے شمالی سندھ آنے والے 600 افراد کو ڈاکوؤں کے پاس جانے سے روکا۔ ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے ساتھ اب ایسے لوگوں کو اغوا ہونے سے بھی بچانا پڑتا ہے۔

 ستمبر 2023 میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی جانب سے جاری کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بعنوان ’شمالی سندھ: پائیدار حل کی تلاش‘ میں انکشاف کیا گیا کہ شمالی سندھ میں کچے کے ڈاکو اغوا برائے تاوان کے ذریعے سالانہ ایک ارب روپے بٹورتے ہیں۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں اس وقت کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) گھوٹکی تنویر تنیو کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2022 کے دوران 300 افراد کو تاوان کی خاطر کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا کیا، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔

یہ رپورٹ ایچ آر سی پی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، کندھ کوٹ، جیکب آباد، لاڑکانہ، کراچی پولیس، صحافیوں، وکلا اور سماجی رہنماؤں سے انٹرویوز کرکے تیار کی تھی۔

اس وقت سندھ میں ڈاکو شمالی سندھ کے چار اضلاع گھوٹکی، کشمور، شکارپور اور سکھر میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شمالی سندھ میں ڈاکو راج 1980 کی دہائی سے قائم ہے۔ ان ڈاکوؤں کے خلاف سندھ پولیس نے کئی بار آپریشن کیے، مگر اس کے باجود ان کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان