صوبہ سندھ کے علاقے کشمور کے سینیئر پولیس افسر بشیر بروہی نے جمعے کو بتایا کہ پانچ سالہ مغوی بچے ایاز خان کو، جس کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، ’انٹیلیجنس آپریشن‘ کے بعد باحفاظت بازیاب کرا لیا گیا۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کشمور بشیر بروہی کے مطابق: ’ہم نے انٹیلیجنس آپریشن کے بعد بچے کو گھوٹکی ضلعے میں دریائے سندھ کے کچے سے بازیاب کرا لیا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ بچے کو اغوا ہوئے ایک مہینہ ہوگیا مگر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے ایک ہی دن میں کیسے بازیاب کرلیا؟ تو ان کا کہنا تھا: ’ہم بچے کے اغوا ہونے والے دن سے اس آپریشن پر کام کررہے تھے اور آج شام بچہ باحفاظت بازیاب ہوگیا۔‘
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک کم عمر بچے پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس کے اہل خانہ نے بتایا کہ اسے کندھ کوٹ سے تاوان کے لیے اغوا کیا گیا۔
21 سیکنڈز کی ویڈیو میں شلوار قمیص میں ملبوس ایک بچے کو زنجیر اور دو تالوں سے بندھا لٹکا دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ بچہ روتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ بچے کو کندھ کوٹ ضلعے کے ڈاکو اغوا کر کے لیے گئے اور تاوان کی رقم نہ ملنے پر ڈاکوؤں نے بچے کو اس طرح زنجیر میں لٹکا کر ویڈیو وائرل کردی۔
بچے کے والد نور اللہ خان نے انڈپینڈںٹ اردو کو بچے کے اغوا ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا بچہ ان کا بیٹا ایاز خان ہے، جس کی عمر پانچ سال ہے۔ سندھ پولیس کے مطابق وہ بچے کی بازیابی کی کوششیں کر رہی تھی۔
ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے نوراللہ خان نے واقے کی تفصیل بتائی: ’تقریباً ایک مہینہ پہلے عید الفطر کے تیسے روز میں گھر میں نماز پڑھ رہا تھا اور بچے باہر کھیل رہے تھے۔ اچانک دو مسلح افراد کلاشنکوف کے ساتھ آئے اور میرے بیٹے کو اٹھا کر لے گئے۔
’شام کو ڈاکوؤں نے ٹیلی فون کال کرکے کہا کہ میرا بیٹا ان کے پاس ہے اور بیٹے کی رہائی کے لیے 50 لاکھ روپے تاوان کی رقم دو ورنہ وہ میرے بیٹے کو مار ڈالیں گے۔‘
نور اللہ خان نے اپنے بیٹے کے اغوا سے متعلق پولیس کو آگاہ کیا اور کندھ کوٹ کے اے سیکشن تھانے کی پولیس نے 14 اپریل کو مقدمہ درج کرلیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نور اللہ خان کے مطابق: ’کئی روز گزرنے کے باوجود پولیس کی جانب سے میرے مغوی بیٹے ایاز کو بازیاب نہ کرانے پر ہم نے احتجاج کرتے ہوئے مرکزی شاہراہ کو دو بار بند کیا، مگر پولیس نے ہم پر تشدد کر کے احتجاج ختم کرا دیا۔
’اس کے علاوہ مقامی پولیس ہمیں باربار کہہ رہی ہے کہ ہم ڈاکوؤں کو تاوان کی رقم ادا کریں۔
’کل اپنے بیٹے کو زنجیروں میں لٹکا دیکھ کر کلیجہ منہ کو آگیا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا میں اپنے بیٹے کو کیسے ڈاکوؤں سے بازیاب کراؤں؟‘
نور اللہ خان کا تعلق کوئٹہ کے مضافات میں واقع نواں کلی شاہ عالم سے ہے۔ موسم سرما میں جب کوئٹہ میں شدید سردی بڑھ جاتی ہے تو وہ چھ مہینوں کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ کندھ کوٹ چلے آتے ہیں۔
وہ کندھ کوٹ شہر کی لنک روڈ پر ملیر کے علاقے میں پٹھان گاؤں میں ایک ٹینٹ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے دو شادیاں کی ہیں اور ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
نوراللہ خان کے مطابق وہ کبھی کوئٹہ اور کبھی کراچی سے کپڑا لا کر موٹرسائیکل پر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جا کر بیچتے ہیں۔
بقول نوراللہ خان: ’میرے پاس اتنی بڑی رقم نہیں۔ میرے پاس جگھی (جھونپڑی) بنانے کے بھی پیسے نہیں۔‘
سینیئر سپرنٹینڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کشمور بشیر بروہی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ وہ بچے کو جلد بازیاب کرا لیں گے۔
بشیر بروہی کے مطابق: ’یہ ڈاکوؤں کا ایک گروہ ہے جس کا تعلق گھوٹکی سے ہے، انہوں نے کندھ کوٹ سے اس بچے کو تقریباً مہینہ پہلے اغوا کیا۔ ہم چند روز میں ایک بڑا آپریشن کرکے اس بچے سمیت تمام مغویوں کو آزاد کرائیں گے۔‘
نوراللہ خان کے الزام کے جواب میں بشیر بروہی نے کہا: ’ایسا ہو ہی نہیں سکتا پولیس مغوی کے خاندان کو تاوان کی رقم ڈاکوؤں کو ادا کرنے کا کہے۔
’ہم نے خود مغوی کے والد کو کہا کہ وہ ڈاکوؤں سے کوئی بات نہ کریں۔ ڈاکوؤں کو ایک بار تاوان دینے کا مقصد ہے انہیں اجازت دی جائے کہ وہ جرائم جاری رکھیں۔
’اگر ایک مغوی کے تاوان کی رقم ادا کی تو کل وہ کسی اور کو اغوا کریں گے۔ اس لیے اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔‘