ہاسٹل میں محفوظ مگر باہر نکلنے پر ہراساں کرتے ہیں: پاکستانی طالب علم

بشکیک میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کا کہنا ہے کہ بعض پاکستانی طلبہ کو ان کے یونیورسٹی کے اساتذہ نے ریسکیو کر کے یونیورسٹیز کے ہاسٹلز میں منتقل کیا اور اب یہ طلبہ وہاں محفوظ ہیں۔

وسطی ایشیا کے ملک کرغزستان میں گذشتہ دو روز سے جاری پرتشدد واقعات کے بعد بشکیک میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کا کہنا ہے کہ بعض پاکستانی طلبہ کو ان کی یونیورسٹی کے اساتذہ نے ریسکیو کر کے یونیورسٹیز کے ہاسٹلز میں منتقل کیا اور اب یہ طلبہ وہاں محفوظ ہیں۔

پاکستانی طلبہ کے مطابق یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں ان کے لیے ہالز اور کمرے خالی کرا دیے گئے ہیں جہاں ان کو منتقل کر دیا گیا ہے۔

بشکیک میں موجود پاکستانی طلبہ کا کہنا ہے کہ جن طلبہ کو مختلف یونیورسٹیز کے ہاسٹلز میں منتقل کیا گیا ہے انہیں انتظامیہ کی جانب سے خوراک بھی فراہم کی جا رہی ہے مگر ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو طلبہ نجی ہاسٹلز میں ہیں ہو وہیں پر محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

اس حوالے سے یونیورسٹی ہاسٹل میں موجود محمد زید نامی طالب علم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ’حالات کنٹرول میں ہیں تو حالات اس حد تک کنٹرول میں ہیں جب تک ہم ہاسٹل کے اندر ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہم یونیورسٹی کی چار دیواری میں بند ہیں اور باہر نہیں جا سکتے۔ تو اس کو اگر کنٹرول حالات کہا جاتا ہے، تو ٹھیک ہے لیکن ہمیں یہ کنٹرول تو نہیں لگتے اگر ہم باہر نہیں جا سکتے۔‘

’یونیورسٹی ہاسٹلز میں تو کچھ ہزار منتقل کیے گئے ہیں لیکن یہاں تو پاکستانی طلبہ بھی 12 ہزار سے زائد ہیں جو مختلف نجی ہاسٹلز اور فلیٹس میں آباد ہیں جو بالکل محصور ہیں۔‘

اسی طرح ذاکر اللہ نامی پاکستان طالب علم نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جس ہاسٹل میں ہیں، وہاں پہلے 200 سے 300 تک طلبہ تھے لیکن اب مختلف ممالک کے 1400 تک طلبہ کو منتقل کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’منتقل کیے جانے والے طلبہ میں پاکستان، انڈیا اور بنگلا دیش سمیت دیگر ممالک کے طلبہ شامل ہیں۔‘

ذاکر اللہ کے مطابق ’ہم یونیورسٹی کے اندر تو محفوظ ہیں لیکن باہر نہیں جا سکتے جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ہاسٹل میں تین وقت کا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ابھی بھی حالات اتنے ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ اگر باہر جائیں گے تو لڑائی نہیں تو ہراساں ضرور کیا جاتا ہے اور سیٹیاں مارتے ہیں اور آوازیں کستے ہیں۔‘

پاکستان آنے کے حوالے سے یونیورسٹی ہاسٹل میں موجود پاکستانی طالب علم فیضان اللہ کہتے ہیں کہ ’وہ خود اور دیگر متعدد طالب علم فائنل ایئر میں ہیں، وہ اس خوف میں ہے کہ اگر پاکستان واپس چلے گئے تو ان کی تعلیم متاثر ہو جائے گی۔‘

ایسی ہی ایک یونیورسٹی میں موجود پاکستانی طالم علم ذاکر اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 200 سے 300 طلبہ کو ہماری یونیورسٹی کے ہاسٹل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’گذشتہ رات کسی عذاب سے کم نہیں تھی جس میں ہمارے کچھ دوستوں کو مارا پیٹا گیا، لیکن اب ہم یونیورسٹی کے ہاسٹل میں بالکل محفوظ ہیں۔‘

انہوں نےمزید  بتایا کہ ’یونیورسٹی میں اب حالات تھوڑے نہیں بلکہ زیادہ بہتر ہے اور اتنا ہے کہ ہم محفوظ ہیں۔‘

اسی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں منتقل کیے گئے ایک دوسرے طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس ہاسٹل میں موجود ایک پاکستانی فیکلٹی ممبر اور ان کی کرغستانی اہلیہ نے ہمارے لیے کھانے کا بندوبست بھی کیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’سبزی، بریڈ اور دیگر سامان ہمیں ٹیچرز نے مہیا کر دیا اور ہم ابھی محفوظ ہیں لیکن اگلے مرحلے میں دیکھتے ہیں کہ پاکستانی حکومت ہمیں پر امن طریقے سے پاکستان کیسے منتقل کرتی ہے۔‘

طلبہ کو کس طریقے سے ریسکیو کیا گیا؟

کرغستان میں ریسکیو کر کے یونیورسٹی ہاسٹل منتقل کیے گئے ایک پاکستانی طالب علم محمد زید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’باہر ہاسٹلوں میں مقیم طلبہ باہر نہیں نکل سکتے تھے تو ان کو ان کے مقامی اساتذہ نے ریسکیو کیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ اساتذہ طلبہ کے وٹس ایپ گروپس میں پیغام بھیج کر طلبہ سے پوچھتے ہیں کہ جہاں پر وہ محفوظ نہیں ہے، وہ اپنی لوکیشن ہمیں بھیج دیں۔ ہم آپ کو ریسکیو کرنے آ جائیں گے۔‘

محمد زید کے مطابق ‘چونکہ یہ اساتذہ مقامی تھے تو ان کو نقل و حرکت میں کوئی مسئلہ نہیں تھا اس لیے وہ اس مقام پر پہنچ کر اپنی ذاتی گاڑیوں میں طلبہ کو بٹھا کر یونیورسٹی کے ہاسٹل میں منتقل کرتے رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرغستان میں غیر ملکی طلبہ کو کیوں زدو کوب کیا گیا؟

بشکیک میں مقیم لاہور سے تعلق رکھنے والے میڈیکل کے طالب علم اور سٹوڈنٹ کیریئر کونسلر سردار عمر ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو کو گذشتہ روز بتایا تھا کہ یہ معاملہ مصر اور کرغستان کے طلبہ کے مابین لڑائی سے شروع ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ’کچھ دن پہلے کرغزستان کے طلبہ اور مصر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے مابین لڑائی ہوئی تھی، جس میں کرغزستان کے طلبہ زخمی ہوئے تھے۔‘

عمر کے مطابق: ’اس کے بعد کرغزستان کے طلبہ نے بدلہ لینے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی اور گذشتہ رات بلا امتیاز ہاسٹلوں میں گھس گئے اور غیر ملکی طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔‘

ان پرتشدد واقعات سے متاثرہ طلبہ میں پاکستانی بھی شامل ہیں جس کو وزارت خارجہ کے مطابق تمام تر مدد فراہم کی جا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان