کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں حالیہ پرتشدد واقعات کے حوالے سے چند پاکستانی طلبہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ کس طرح مشتعل افراد ان کے ہاسٹلوں تک پہنچے اور اب ہاسٹلوں سے باہر بھی غیر ملکی طلبہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایک پاکستانی طالبہ عائشہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ مشتعل افراد نے ان کے فلیٹ میں گھسنے کی کوشش کی، لیکن خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہیں۔
عائشہ اس وقت بشکیک میں میڈیکل کی طالبہ ہیں اور کشیدہ حالات سے پریشان ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صبح سویرے وہ ہاسٹل کے اندر ایک فلیٹ میں موجود تھیں کہ کچھ مشتعل افراد آئے اور کمرے کا دروزہ کھٹکھٹانے لگے۔
’میں اپنے فلیٹ میں تھی کہ باہر غنڈے دروازہ کھٹکھٹانے لگے۔ وہ اندر آنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن کچھ دیر بعد چلے گئے اور اب میں ایک دوست کے ہاں محفوظ ہوں۔‘
انہوں نے بتایا: ’میرا کمرہ بھی گراؤنڈ فلور پر ہے اور میری روم میٹ بھی موجود نہیں تھی۔ وہ میرے اپارٹمنٹ میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عائشہ نے بتایا کہ ہاسٹلز میں انہوں نے طلبہ و طالبات کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ وہ قومیت کے امتیاز کے بغیر سب کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔
عائشہ نے پاکستانی حکومت سے اپیل کی کہ خدارا ان پاکستانی طلبہ کی جانوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔
کرغزستان میں غیر ملکی طلبہ کے ہاسٹلز اور رہائش گاہوں پر مقامی افراد کے حملے میں پاکستانیوں سمیت انڈیا، بنگلہ دیش، مصر اور دیگر ممالک کے طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
عائشہ نے بتایا کہ وہ اپنی یونیورسٹی میں پاکستانی طالبات کی سفیر ہیں اور رات کو یہ مسئلہ درپیش آتے ہی انہوں نے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تھا۔
تاہم عائشہ کے مطابق پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے وہ ردعمل نہیں ملا، جو ملنا چاہیے تھا۔
انہوں نے بتایا: ’اب ہم دوستوں یا اپنی رہائش گاہوں میں محصور ہیں اور باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ اب ہاسٹلوں سے باہر غیر ملکی طلبہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
معاملہ یہاں تک پہنچا کیسے؟
بشکیک میں مقیم لاہور سے تعلق رکھنے والے میڈیکل کے طالب علم اور سٹوڈنٹ کیریئر کونسلر سردار عمر ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ دن پہلے یہاں کرغزستان کے طلبہ اور مصر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے مابین لڑائی ہوئی تھی، جس میں کرغزستان کے طلبہ زخمی ہوئے تھے۔
عمر کے مطابق: ’اس کے بعد کرغزستان کے طلبہ نے بدلہ لینے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی اور گذشتہ رات بلا امتیاز ہاسٹلوں میں گھس گئے اور طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔‘
انہوں نے بتایا: ’یہ لڑائی کرغزستان اور مصر کے طلبہ کے مابین تھی لیکن 200 سے 250 مشتعل افراد نے یہ دیکھے بغیر کہ طلبہ کس ملک سے ہیں، انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔‘
عمر نے بتایا کہ ہاسٹلوں میں اب حالات نارمل ہوگئے ہیں لیکن اب باہر غیر ملکی طلبہ کو ڈھونڈا جا رہا ہے، جس سے پاکستانی طلبہ بھی متاثر ہیں اور اپنی رہائش گاہوں تک محدود ہیں۔
رواں سال جنوری میں اسلام آباد میں ہونے والےگلوبل ہیلتھ سمٹ میں محکمہ صحت پاکستان نے بتایا تھا کہ کرغزستان میں 12 ہزار پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
فاروق زیب کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے ہے اور وہ کرغزستان کی ایڈم یونیورسٹی میں میڈیکل کے چوتھے سال کے طالب علم ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مصر اور کرغزستان کے طلبہ کی لڑائی ہوئی تو کرغزستان کے طلبہ بدلہ لینے اس ہاسٹل میں گئے، جہاں مصر کے طلبہ رہائش پذیر تھے۔
فاروق زیب نے بتایا: ’کرغزستان کے طلبہ ہاسٹل جا کر مصر کے طلبہ کو مارنا چاہتے تھے لیکن ہاسٹل میں موجود مصر سمیت دیگر طلبہ نے بھی کرغزستان کے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے بعد کرغزستان کے طلبہ نے بلا امتیاز ہاسٹلوں میں جا کر تمام ممالک کے طلبہ کو مارا پیٹا۔‘
فاروق زیب نے مزید بتایا کہ یونیورسٹیاں غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی گئی ہیں اور ہمیں اپنے رہائشی فلیٹس سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہاں بعض طلبہ ہاسٹلز اور بعض مختلف علاقوں میں کرائے کے اپارٹمنٹس میں رہتے ہیں، جس کے آس پاس کرغزستان کے لوگوں کی بھی رہائش گاہیں ہیں تو خوف کی وجہ سے اب ہم باہر بھی نہیں نکل سکتے۔‘
سوشل میڈیا پر کرغزستان میں پاکستانی طلبہ کی اموات کی خبروں کی پاکستان کی وزارت خارجہ نے تردید کی ہے، تاہم ان واقعات میں پانچ پاکستانی زخمی ہوئے۔ پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ ان طلبہ کی ہر ممکن مدد کی جائے گی
دوسری جانب کرغزستان کی وزارت خارجہ نے بھی کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے صورت حال پر مکمل طور پر قابو پا لیا ہے اور اب حالات معمول پر آ چکے ہیں۔