مظہر علی اور پی ٹی وی – ماضی کی ایک اور یاد کا پرسہ

کسی کے بال نہ ہوں اور پھر بھی اتنا پیارا ہو، اپنے عروج کے زمانے میں ساجد علی کے علاوہ سید مظہر علی ایسی وجاہت کی طرفہ مثال تھے۔

اداکار مظہر علی کی ایک سدابہار تصویر جو ان کے فیس بک پیج پر موجود تھی اور اسے ڈیجیٹائز کیا گیا (فیس بک، مظہر علی)

عروسہ میں انتہائی منفی اور چبا چبا کر جملے ادا کرنے والے خوش شکل اداکار مظہر علی کی سناؤنی آج چلتے ٹی وی نے دی۔

وہی ٹی وی جس پہ وہ چھائے رہتے تھے ایک طویل عرصے اس پر سے گم بھی رہے۔ گمشدگی اپنی جگہ لیکن دلوں پر ان کی حکومت ایسی تھی کہ ایک لحظے کو محسوس ہوا جیسے وقت واپس اس زمانے میں پہنچ گیا ہے جب ہم لوگ رات آٹھ بجے اپنے دوسرے کرش کے انتظار میں عروسہ ڈراما دیکھا کرتے تھے۔

پہلا کرش ریشم تھیں، مشی خان کو یہ رتبہ عروسہ کی وجہ سے ملا تھا۔

زمانہ ایک سا نہیں رہتا اور اس کا سب سے زیادہ احساس ہماری بدلتی صحت دلاتی ہے۔ مظہر علی کا چہرہ اب پہلے جیسا چمک دار صحت مند نہیں تھا، یوٹیوب پر دو ماہ پہلے ایک ویڈیو دیکھی تو علم ہوا کہ وہ اب امریکہ مقیم ہیں اور کچھ سنجیدہ نوعیت کے عارضے انہیں لاحق ہیں۔

اسی چینل پر یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ’سرسید کے پڑپوتے‘ ہیں، یہ دعویٰ غلط تھا، لیکن اگر یہ لکھا ہوتا کہ وہ لکھنئو کے کسی نواب خاندان سے ہیں تو میں اس بات پر بھی یقین کر لیتا کیونکہ ان کے چہرے پہ الگ ہی سکون برستا تھا، خاندانی امارت والا سکون۔ بالخصوص کندھے پر ایک سائیڈ سے شال جب اوڑھتے تو بالکل انڈین اداکار فاروق شیخ جیسے لگتے، اور خیر یہ مشابہت بھی کیا اہمیت رکھتی ہے، خوب رو اور نواب شکل انسان تھے، بس یہ لکھنا کافی ہے۔

کسی کے بال نہ ہوں اور پھر بھی اتنا پیارا ہو، اپنے عروج کے زمانے میں ساجد علی کے علاوہ سید مظہر علی ایسی وجاہت کی طرفہ مثال تھے۔

پھر میں نے 2002 کے دوران ہیوسٹن میں ہونے والے ایک مشاعرے کی ویڈیو دیکھی جس میں مظہر علی بھی شریک ہوئے، میزبان نے ان کا تعارف کروایا تو بتایا کہ ’وہ بڑے نجیب الطرفین علی گڑھین ہیں کیونکہ ان کے پردادا سرسید کے رفقا اور وہاں کے ٹرسٹیز میں سے تھے۔ تب ’سرسید کے پڑپوتے‘ والے اس غلط دعوے کی وجہ سمجھ آئی، یار لوگ اشارہ دیتے ہیں مہربان خود سے چار باتیں بڑھا لیتے ہیں۔

اس کے بعد مظہر علی آئے اور جو کچھ پڑھا اس کا نمونہ دیکھ لیجے؛

کچھ ایسی گردشیں ہیں چار جانب
کہ چلنا موت ہے رکنا سفر ہے

ایک اور شعر دیکھیے گا؛

یہ بستی میں کیسی عجب روشنی ہے
کہ گھر جل رہے ہیں دھواں تک نہیں ہے۔

مظہر علی این ای ڈی کے گریجویٹ تھے، سول انجینیئر تھے، کے ڈی اے میں نوکری کرتے تھے، لیکن شہرت انہیں عروسہ، افشاں، ہالہ یا خدا اور محبت جیسے یادگار ڈراموں کی وجہ سے ملی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

این ای ڈی کا ذکر ہوا تو میں نے سوچا عثمان بھائی سے پوچھوں، وہ بھی این ای ڈی سے پڑھے تھے، عثمان قاضی نے بتایا کہ مظہر علی ان سے کافی سینیئر تھے، ’بہت باغ و بہار آدمی تھے اور کوئٹے ان کا بہت چکر لگتا تھا۔ ہمارے گھر بھی آئے لیکن بڑے بھائی (امتیاز صاحب) کے دوست تھے تو بس احترام والا فاصلہ رہتا تھا۔ بیمار تھے بہت عرصے سے شدید، خدا مغفرت کرے۔‘

دس سال پہلے ہم ٹی وی پر فہد مصطفیٰ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ’مجھ سے ایک بہت بڑی بھول ہوئی، میں پاکستان چھوڑ کے امریکہ چلا گی، اور اس عہد میں چلا گیا جس کی بنیادیں میں نے رکھی تھیں اپنے دوستوں کے ساتھ، ایک پروڈکشن کے لیے ہی باہر گیا، کوئی ارادہ نہیں تھا رکنے کا، لیکن بس وقت ۔۔۔ رک گیا میں وہیں، بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی سزا عمر بھر بھگتنی پڑتی ہے۔‘ مظہر علی اپنے کسی ڈرامہ سیریل کے حوالے سے وہاں بات کر رہے تھے۔

مظہر علی کی ہمشیر اہلہ عمران کے مطابق مظہر علی کو دل کا عارضہ تھا، پاکستان آنے کے بعد کئی چینلز پر گئے لیکن سب نے یہی کہا کہ صحت کی وجہ سے اب آپ کر نہیں پائیں گے۔

جیو سے بات کرتے ہوئے وہ کہنے لگیں کہ ’مظہر علی امریکہ واپس جا رہے تھے ایک ماہ پہلے لیکن طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے رُک گئے‘، میں سوچ رہا تھا کہ مٹی نے روکا، قسمت نے ٹھہرایا اور یا پھر ملک الموت کی ملاقات پاکستان ہی میں طے تھی۔

پھر میں نے سوچا کہ بہنیں، بھائی خوش قسمت تھے جو ان کے درمیان سے چل دیے، ہیوسٹن ہوتے تو خدا جانے کون دیکھ پاتا اور کون صرف پرانی تصویریں دیکھتا رہ جاتا، یہ بھی ایک الگ اذیت ہوتی ہے۔

مظہر علی کے سوگواروں میں دو بیٹیاں، ایک بیٹا اور اہلیہ شامل ہیں۔

ان کے چاہنے والے میری طرف سے اپنے ماضی کی ایک اور یاد کا پرسہ قبول کریں۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی