رمضان، سیاست اور حکومت کے بڑے چیلنجز

حکومت کی ابھی تک کی کارکردگی اپنی جگہ، لیکن معاشی نمو کے علاوہ دہشت گردی اور سکیورٹی کے مسائل ایسے چیلنجز ہیں جن سے نمٹے بغیر معیشت کی ترقی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا یقیناً آسان نہیں ہوگا۔

وزیر اعظم شہباز شریف 16 اکتوبر، 2024 کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی/ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ)

رمضان کے آغاز کے ساتھ سیاسی سرگرمیاں افطاریوں تک محدود ہو جاتی ہیں اور کچھ زیادہ ہلا گلا دیکھنے کو نظر نہیں آتا۔

رمضان سے پہلے اپوزیشن نے اسلام آباد میں دو دن تک خود کو اور میڈیا کو مصروف رکھا کہ نہ تو گرینڈ اپوزیشن الائنس کا اعلان ہوا اور نہ حکومت کے خلاف کسی خاص حکمت عملی کا۔

اس کی بڑی وجہ جمیعت علما اسلام اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ جے یو آئی نے پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے کے لیے اپنی شرائط سامنے رکھیں جس کا تاحال کوئی جواب نہیں ملا۔

تاہم پارٹی کی مرکزی قیادت اس سوال کا جواب تلاش کر رہی ہے کہ اگر یہ تحریک 2024 کے انتخابات کے نتائج کے خلاف چلنی ہے تو ان کے ساتھ ہونے والی ’دھاندلی‘ کی فائدہ اٹھانے والی جماعت تحریک انصاف ہے۔

جے یو آئی کا اصل مقابلہ ہی تحریک انصاف سے خیبر پختونخوا کی پچ پر ہوتا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ اگر کوئی تحریک شروع ہوتی بھی ہے، جس کے امکانات بہت ہی کم ہیں، تو ایسے میں حکومت کو مشکل وقت ملنے کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا، نہ کہ جے یو آئی کو۔

جے یو آئی کی قیادت غیر رسمی گفتگو میں کئی بار ان خیالات کا اظہار کر چکی ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کی صورت میں چاہے نواز شریف ہوں یا آصف علی زرداری، دونوں کی جماعتوں نے ان کا کاندھا استعمال کیا اور اقتدار میں آنے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

اس لیے وہ اب ’کسی بھی اتحاد، خصوصاً تحریک انصاف کے ساتھ، قدم پھونک پھونک کر چلیں گے‘ اور ویسے بھی عام فہم بات یہ ہے کہ موجودہ سیاسی اور ملکی حالات میں تحریک انصاف بطور جماعت کمزور ہوئی ہے، اور یہ صورت حال سب سے زیادہ جے یو آئی کو سوٹ کرتی ہے، اگرچہ وہ اقتدار سے دور ہی سہی۔

یہ تو رہی اپوزیشن کی سیاست، اب بات کریں حکومت کی تو دو درجن سے زیادہ مزید وزرا کابینہ میں شامل ہو چکے ہیں اور جب یہ سطور آپ کی نظر سے گزر رہی ہوں گی تو حکومت اپنی ایک سالہ کارکردگی کا اعلان کر چکی ہو گی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف نے ایک مشکل وقت میں حکومت سنبھالی اور معیشت کی بحالی کے لیے کافی محنت کی۔

اس دوران آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوئے، مہنگائی کم ہوئی، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں آیا، شرح سود میں خاطر خواہ کمی بھی آئی، لیکن اب حکومت کا اصل چیلنج نمو کی طرف جانا ہے۔

گذشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف سے تفصیلی ملاقات کا موقع ملا، جس میں سیاست پر گفتگو نہ ہونے کے برابر رہی۔

وہ جہاں کارکردگی کا بہت سارا کریڈٹ اپنی ٹیم اور موجودہ آرمی چیف کو دیتے ہیں، وہیں ان کے بقول جو سفر ہم نے طے کیا وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ابھی ہمارے سامنے پہاڑ جیسے چیلنجز ہیں۔

حکومت کی ابھی تک کی کارکردگی اپنی جگہ، لیکن معاشی نمو کے علاوہ دہشت گردی اور سکیورٹی کے مسائل ایسے چیلنجز ہیں جن سے نمٹے بغیر معیشت کی ترقی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا یقیناً آسان نہیں ہوگا۔

گذشتہ ہفتے جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق کی خودکش حملے میں موت پاک - افغان اور خطے کے حالات پر نظر رکھنے والوں کے لیے ایک بڑی خبر ہے۔

جامعہ حقانیہ کا گذشتہ کئی دہائیوں سے مذہبی اور جہادی سیاست میں ایک کردار رہا ہے۔ مولانا حامد الحق حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے افغان طالبان سے رابطوں اور امن کے لیے ’کوششوں‘ میں پیش پیش تھے۔

اسی طرح بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پریشان کن ہیں، لیکن وزیراعظم شہباز شریف کے بقول ’موجودہ آرمی چیف قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے۔ اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ان شاء اللہ اگلے چند ماہ میں سکیورٹی کے معاملات میں کافی بہتری آئے گی۔‘

ایک اور اہم معاملہ جس پر وزیراعظم سے گفتگو ہوئی وہ ہے پاکستان میں سکولوں سے باہر بچے، جن کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صرف 18 سال سے کم عمر 40 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے اور جو جا رہے ہیں، ان کا معیار تعلیم ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

شہباز شریف نے جواب دیا ’آپ کی بات بالکل درست ہے اور اسی لیے حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی ہے۔‘ لیکن انہوں نے وعدہ کیا کہ حکومت اس معاملے کو مزید سنجیدگی سے لے گی اور خود اس عمل کی نگرانی کریں گے۔

جب آپ کی نوجوان آبادی کا 40 فیصد سکول ہی نہیں جا رہا تو آپ کیسے ایک ملک کے روشن مستقبل کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟

ہم اپنی آمدنی کا دو سے تین فیصد تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں، اگر تعلیمی ایمرجنسی لگا کر اسے واقعی کامیاب بنانا ہے تو پھر تعلیمی بجٹ کو ہنگامی بنیادوں پر بڑھانا پڑے گا۔

حکومت کے لیے ایک اور چیلنج اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کو منانا بھی ہے۔ 

اگرچہ شہباز شریف سے ملاقات میں سیاسی معاملات پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی، بلکہ گفتگو کا محور حکومت کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم اور چیلنجز تھے۔

لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت غیر رسمی گفتگو میں بتا رہی ہے کہ ’اب بہت ہو گیا، ہمیں پالیسی کے فیصلوں سے دور رکھا جا رہا ہے، اہم معاملات پر ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی جا رہی، اور خصوصاً پنجاب میں ہم سے کیے گئے وعدوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے۔‘

ایک انتہائی سینیئر رہنما سے استفسار کیا کہ زرداری کے بقول حکومت میں رہنا اور ان کا ساتھ دینا ہماری مجبوری ہے، تو انہوں نے مسکرا کر کہا: ’تھوڑا انتظار کریں اور ہم سے بجٹ منظور کروا کر دکھائیں، پتا چل جائے گا کہ ہماری کون سی اور کتنی مجبوری ہے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف آج کل میں چیئرمین پیپلز پارٹی سے ملاقات کر رہے ہیں اور شاید معاملات بہتری کی طرف جائیں، وگرنہ پیپلز پارٹی ن لیگ کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ کر چکی ہے۔

نوٹ:  یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ