ٹرمپ کی تجارتی جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں، امریکہ کو بھی نہیں

ٹرمپ کی اس تجارتی پالیسی سے امریکہ کی بطور اچھے تجارتی شراکت دار ساکھ بھی متاثر ہو گی کیونکہ ممکن ہے کہ تجارتی راستے کسی اور سمت مڑ جائیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کینیڈا اور میکسیکو پر عائد کیے گئے محصولات نافذ العمل ہونے کے بعد چار مارچ 2025 کو کیلیفورنیا کے شہر لانگ بیچ کی بندرگاہ پر شپنگ کنٹینرز دیکھے جا سکتے ہیں (اے ایف پی)

ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت ذرا مختلف ہے۔ وہ اس بار پہلے سے زیادہ منظم ہیں اور انہوں نے اپنی ٹیم کو ایسے عہدوں پر تعینات کر دیا ہے جہاں وہ ان کے ایجنڈے پر مؤثر طریقے سے عمل کر سکیں جس میں ان کی تباہ کن خواہشات بھی شامل ہیں۔

اسی لیے ایک ماہ کی معطلی کے بعد کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فی صد محصولات عائد کیے جا چکے ہیں جبکہ چین پر بھی اضافی ٹیکس لگا کر مجموعی طور پر محصول کو 20 فی صد کر دیا گیا۔

یہ محصولات درآمد کنندگان، بندرگاہوں اور سرحدی گزرگاہوں پر ادا کرتے ہیں۔ نظریہ یہ ہے کہ یہ ٹیکس مقامی صنعتوں کو تحفظ فراہم کریں گے لیکن عملی طور پر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ کیا واقعی کبھی ایسا ہوا ہے؟

آئیے کینیڈا کی مثال لیتے ہیں جس کی برآمدات پر عائد کیے گئے محصولات صرف اس کی سب سے مشہور برآمدات، یعنی میپل سیرپ (جو اس کے مشہور جھنڈے کی علامت بھی ہے) تک محدود نہیں، بلکہ توانائی کے شعبے پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔

کینیڈا توانائی کی شدید طلب والے امریکہ کو اس کے ہائیڈرو کاربن کی درآمدات کا تقریباً 58  فی صد اور خام تیل کی درآمدات کا 60 فی صد فراہم کرتا ہے۔ امریکہ کے لیے کینیڈا ایک اچھا فراہم کنندہ ہے کیونکہ وہ بالکل پڑوس میں ہے اور اس کا ایک قابل اعتماد اتحادی بھی ہے بلکہ تھا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکہ میں تیل اور بجلی مزید مہنگی ہو جائے گی۔

جب کاروبار کو بڑھتی ہوئی لاگت کا سامنا ہوتا ہے تو ان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ خود اس بوجھ کو برداشت کریں یا اسے صارفین تک منتقل کر دیں یعنی عام امریکی شہری تک۔ نئی صورت حال میں زیادہ تر کاروبار دوسرا راستہ اپنانا پسند کریں گے۔

مثال کے طور پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو امریکی کینیڈین میپل سیرپ خریدتے ہیں اس کی قیمت فوراً 25 فی صد بڑھ جائے گی لیکن قیمت میں نمایاں اضافہ ضرور ہو گا۔

ادھر توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ وہ معیشت میں مہنگائی کو بڑھا دیتی ہے۔ برطانوی عوام، جو اپنی بجلی کے لیے عالمی منڈی پر انحصار کرتے ہیں، اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔

پھر لکڑی کا معاملہ بھی ہے۔ کینیڈا کی لکڑی کی ان امریکی علاقوں میں بہت زیادہ طلب میں ہے جو قدرتی آفات کے بعد دوبارہ تعمیر ہو رہے ہیں۔ یہ ایسی شے نہیں جس کی قیمت میں اضافہ کرنا عقل مندی ہو گی۔

ٹرمپ اور ریپبلکنز کے امریکی انتخابات میں کامیاب ہونے کی ایک بڑی وجہ مہنگائی کا امریکی صارف پر اثر تھا۔ اس حوالے سے جو بائیڈن کے ’انفلیشن ریڈکشن ایکٹ‘ پر خاصی تنقید کی گئی۔ اس بڑے قانون کے ذریعے اربوں ڈالر کلین انرجی پر خرچ کیے گئے، اس کے علاوہ ’افورڈایبل کیئر ایکٹ‘ کی سبسڈیز اور امریکی انٹرنل ریونیو سروس میں بھی ٹیکس وصولی بہتر بنانے کے لیے توسیع دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن حقیقت میں اس قانون سازی کم از کم مختصر مدت میں مہنگائی کم کرنے کے لیے زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی۔ بعض ناقدین نے تو یہاں تک کہا کہ اس بڑے مالیاتی پیکیج نے صارفین پر اس کا الٹا اثر ڈالا ہے۔

محصولات (ٹیرف) کے بارے میں کوئی بحث نہیں۔ یہ مہنگائی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو مرکزی بینک کا اگلا قدم کیا ہوتا ہے؟ وہ شرحِ سود میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے گھریلو اور کاروباری قرض لینے والے متاثر ہوتے ہیں اور معاشی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔

ٹرمپ کے اس فیصلے سے امریکہ کی بطور اچھے تجارتی شراکت دار ساکھ بھی متاثر ہو گی کیونکہ ممکن ہے کہ تجارتی راستے کسی اور سمت مڑ جائیں۔ اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ گذشتہ بار بھی ایسا ہوا تھا۔

یہ سچ ہے کہ محصولات بعض مقامی صنعتوں کو تحفظ دے سکتے ہیں لیکن یہ دیگر صنعتوں کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔

نہ صرف وہ جو زیادہ محصولات سے متاثرہ ممالک سے خام مال درآمد کرتی ہیں بلکہ اس سے برآمد کنندگان بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ردعمل کے طور پر دوسرے ممالک بھی جوابی محصولات عائد کر دیتے ہیں، جیسا کہ اس معاملے میں کینیڈا اور چین نے کیا ہے۔

عالمی تجارتی جنگ وہ آخری چیز ہے جس کی ایک عالمی معیشت کو ضرورت ہے جو پہلے ہی کئی غیر متوقع بحرانوں سے لڑ رہی ہے لیکن پھر بھی یہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں عالمی سٹاک مارکیٹوں میں زبردست گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ٹرمپ کی اس پالیسی کا دوسرا مقصد ملکی آمدنی میں اضافہ ہے۔ امریکہ کا قرض اب جی ڈی پی کے 124 فی صد تک پہنچ چکا ہے جبکہ برطانیہ کا قرض اس کے جی ڈی پی کے 95 فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔

گذشتہ ہفتے امریکی ایوان نمائندگان نے ایک بہت بڑے اخراجاتی بل کی منظوری دی جو ٹرمپ کی پارٹی لائنز کے مطابق پاس ہوا۔ صرف ریپبلکن کانگریس مین تھامس میسی نے اس بل کی مخالفت کی۔ وہ ایک نمایاں مالیاتی قدامت پسند سمجھے جاتے ہیں۔

ایلون مسک کے ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شینسی‘ میں تمام دعووں کے باوجود امریکہ اپنے اخراجات میں اتنی کٹوتی نہیں کر رہا کہ وہ قرض میں غیرمعمولی اضافے کو روک سکے۔

اور آمدنی بڑھانے کا اس سے زیادہ تباہ کن طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ محصولات لگا کر معیشت کو مزید نقصان پہنچایا جائے۔

نوٹ:  یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ