پاکستان خطے کی بحری سلامتی کے فروغ میں پیش پیش

’امن‘ جیسی دفاعی مشقیں شریک ممالک کو بحری سلامتی کو یقینی بنانے اور عالمی و علاقائی سطح پر امن اور خوشحالی کے لیے ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔

پاکستان کے نیول کمانڈوز 10 فروری، 2025 کو بحیرہ عرب میں کراچی کے قریب کثیر القومی بحری مشق امن-25 میں حصہ لے رہے ہیں (اے ایف پی)

آج کی دنیا میں علاقائی اور عالمی بحری سلامتی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی بحریہ 2007 سے بین الاقوامی بحری مشقوں کی میزبانی کر رہی ہے۔

’امن‘ کہلائی جانے والی یہ مشقیں ہر دو سال بعد ’ٹوگیدر فار پیس‘ کے عزم کے تحت منعقد کی جاتی ہیں۔ ان مشقوں کا بنیادی مقصد علاقائی تعاون اور استحکام کو فروغ دینا، باہمی آپریشنل صلاحیت میں اضافہ کرنا اور دہشت گردی و بحری قزاقی کے خلاف متحدہ عزم کا مظاہرہ کرنا ہے۔

ان مشقوں میں عالمی شرکت مسلسل بڑھ رہی ہے اور فروری 2025 میں 60 ممالک نے یہاں کے پانیوں کا رخ کیا جس سے دفاعی شعبے میں دو طرفہ اور کثیرالطرفہ تعلقات کی بہتری میں مدد ملی۔

ان ممالک میں امریکہ، چین، سعودی عرب، جاپان، متحدہ عرب امارات، عمان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل تھے۔ مشقیں صرف بحری جہازوں تک محدود نہیں تھیں بلکہ فضائی یونٹس اور خصوصی سروسز گروپس نے بھی ان میں حصہ لیا۔

بحر ہند کے پانیوں سے سب سے منتقل ہونے والا اب سے زیادہ سٹریٹجک سامان توانائی کے وسائل ہیں۔ تیل کی ترسیل کے لیے خلیج فارس، جو بحیرہ عرب کا ایک حصہ ہے، انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔

اس سے مزید آگے بحیرہ احمر سے لے کر نہر سویز تک کا راستہ بھی ایک اہم آبی گزرگاہ ہے۔ ان سمندری گزرگاہوں کا تحفظ نہ صرف تیل برآمد کرنے والے ممالک کے لیے ضروری ہے بلکہ عالمی معیشت کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

خلیج فارس سے برآمد ہونے والا تیل اور گیس پاکستان کی سمندری حدود سے گزرتی ہے، لہٰذا پاکستانی میری ٹائم سکیورٹی فورسز کا اپنے علاقائی پانیوں اور اس سے باہر محفوظ تجارت کو یقینی بنانے میں ایک واضح کردار ہے۔

پاکستان خود اپنی توانائی کی ضروریات کا بڑا حصہ خلیجی ممالک سے درآمد کرتا ہے، لیکن اپنی قومی ذمہ داری سے بڑھ کر پاکستان نیوی بحرین میں قائم کولیشن ٹاسک فورس(سی ٹی ایف)  کا بھی حصہ ہے جو کھلے سمندر میں دہشت گردی، قزاقی اور سمگلنگ کو روکنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

امن 2025 مشقوں کے دوران سمندر میں مشقوں کے ساتھ ساتھ ’محفوظ سمندر، خوشحال مستقبل‘کے عنوان سے ایک مکالمہ بھی کراچی ڈاک یارڈ پر منعقد ہوا جس میں کئی بحری سلامتی سے متعلق موضوعات زیر بحث آئے۔

ان میں بحر ہند میں سکیورٹی چیلنجز، قزاقی، منشیات کی سمگلنگ، سٹریٹجک مسابقت اور غیر ریاستی عناصر کے کردار جیسے موضوعات شامل تھے۔

اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے کردار پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

ان مشقوں میں بڑھتی ہوئی شرکت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ عالمی بحری برادری باہمی تعاون کی ضرورت کو سمجھتی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2007 میں امن مشقوں میں صرف 27  ممالک شریک تھے جبکہ 2023 میں یہ تعداد 50 ہو چکی تھی۔

یہ مشقیں وقت کے ساتھ زیادہ مقبول کیوں ہو رہی ہیں؟ بحری تجارت عالمی معیشت کی شہ رگ ہے اور پاکستان کی بحریہ ہمیشہ اعلیٰ پیشہ ورانہ معیارات پر کاربند رہی ہے۔

دوسری جانب اگرچہ پاکستان کا جغرافیائی محلِ وقوع چیلنجز سے بھرا ہوا ہے، لیکن یہ اسے بے شمار مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی ایک مثال پاکستان کا وسیع خصوصی اقتصادی زون (ای ای زیڈ) ہے جو بین الاقوامی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مثبت نتائج دے سکتا ہے۔

تمام بحری ممالک، بشمول پاکستان، سمندری آلودگی اور زیرِ آب قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے بین الاقوامی اشتراک کی ضرورت ہے جس پر امن مکالمے میں گفتگو کی گئی۔

پاکستان سمیت تمام ساحلی ممالک سمندری آلودگی اور پانی کے اندر قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے بین الاقوامی تعاون درکار ہے جو امن مکالمے میں زیر بحث آیا۔

ایک سینیئر سعودی دفاعی افسر کے مطابق ریاض ان مشقوں کو بحری تعاون بڑھانے اور مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتا ہے۔

مشقوں کے دوران بحری جہازوں کی آمد و رفت، سرچ اینڈ ریسکیو کی کارروائیاں، لائیو ویپن فائرنگ اور سپیشل سروسز گروپ کی انسداد دہشت گردی کی ڈرلز بھی شامل تھیں۔ زمین پر ہونے والی گفتگو میں غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے طریقوں پر بھی غور کیا گیا۔

سعودی عرب کے دو ساحلی علاقے، خلیج عرب اور بحیرہ احمر، جن کی مجموعی لمبائی 2,640  کلومیٹر ہے حالیہ برسوں میں کئی تنازعات کا مرکز رہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کی ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے جہاں غیر قانونی ماہی گیری ایک بڑا مسئلہ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ چوکس رہنا آزادی کی قیمت ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں اسی لیے وہ اپنی ساحلی حدود کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان بین الاقوامی بحری مشقوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔

زمینی، فضائی اور بحری جنگوں کا طریقہ کار تیزی سے بدل رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھالنا اور جدید مہارتوں کو اپنانا کامیابی کی کنجی ہے۔

’امن‘ جیسی دفاعی مشقیں شریک ممالک کو بحری سلامتی کو یقینی بنانے اور عالمی و علاقائی سطح پر امن اور خوشحالی کے لیے ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہیں۔

جاوید حفیظ سابق سفارت کار ہیں۔ ان کی یہ تحریر پہلے عرب نیوز پر شائع ہوئی تھی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ