ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے بشار الاسد حکومت کے خلاف اپنی فتح کے اعلان کے لیے اموی مسجد دمشق کو منتخب کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کسی فاتح نے ایسا کیا ہے بلکہ یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے کہ حکمران تخت نشین ہونے سے پہلے اسی مسجد کے منبر پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔
شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بہت وائرل ہوئی کہ ’جامع مسجد دمشق میں 50 سال بعد اذان دی گئی‘ حالانکہ یہ دنیا کی واحد مسجد ہے جس میں اس وقت بھی 25 موذن ہیں جو مختلف اوقات میں مل کر اذان دیتے ہیں۔ خود بشار الاسد اسی مسجد میں عید کی نماز ادا کرتے تھے۔
جب مسلمانوں نے 634 عیسوی میں دمشق فتح کیا تو یہ مسجد عین اس جگہ تعمیر کی گئی جہاں حضرت یحییٰ کا مزار بھی موجود تھا، اس لیے مسیحی بھی اسے مقدس سمجھتے ہیں۔ یہی وہ مسجد ہے جہاں یزید نے حضرت امام حسین کا بریدہ سر رکھا تھا۔ مسجد کی شمالی دیوار کے سائے میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا مقبرہ بھی ہے۔
مسجد کی تعمیر پر پانچ کروڑ دینارصرف ہوئے
دمشق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے، جو ہزاروں سال سے مسلسل آباد چلا آ رہا ہے۔ یہاں پر حداد کا وہ تاریخی مندر بھی دریافت ہوا ہے جو تین ہزار سال پرانا ہے، جسے آرامی قوم خدا گردانتی تھی۔ مسجد کی بنیادیں رکھتے وقت پتھر کی ایک ایسی تختی بھی ملی ہے، جس پر ایک ایسی شبیہ بنی ہوئی ہے، جس کا دھڑ شیر کا اور سر انسان کا ہے۔ پہلی صدی کے اوائل میں رومیوں نے یہیں پر مشتری کے مندر کی بنیاد رکھی تھے، جو قدیم رومیوں کے عقائد کے مطابق آسمانوں اور بارشوں کا خدا ہے۔ اس مندر کی کچھ باقیات اب بھی موجود ہیں۔
اموی خلفا کے دور میں دمشق پایۂ تخت قرار پایا تو706 میں چھٹے اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے یہاں پر ایک عظیم الشان مسجد بنانے کی ٹھانی۔ اس سے پہلے یہاں پر بازنطینیوں کے دور کا ایک گرجا بنا ہوا تھا، جس کے ساتھ مسلمانوں کا مصلیٰ بھی تھا۔ جب ولید بن عبد الملک نے گرجے کی جگہ پر ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر شروع کی تو مسیحیوں نے احتجاج کیا، جس پر ولید بن عبد الملک نے انہیں معاوضہ دینے اور اس کے بدلے میں دمشق کے تمام گرجے واگزار کرنے کی یقین دہانی کرائی تو مسیحی مان گئے۔
یہ مسجد 715 میں خلیفہ سلمان بن عبد المالک کے عہد میں تکمیل کو پہنچی تو جو اسے دیکھتا دنگ رہ جاتا۔ ابن بطوطہ نے بھی اسے بے مثال قرار دیا۔ مسجد میں 68 ستون اور 20 محرابی دروازے بنائے گئے۔ مسجد کو سونے کے جواہرات اور نگینوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔
مسجد میں 600 طلائی چراغ آویزاں کیے گئے تھے۔ مسجد کی تعمیر میں 12 ہزار ایرانی، ہندوستانی، یونانی اور مراکشی ماہرین تعمیرات اور مزدوروں نے حصہ لیا تھا۔ اس کی تعمیر پر کتنی لاگت آئی اس کے حوالے سے مختلف روایتیں موجود ہیں۔ مسلمان مؤرخ ابن المعلی الاموی لکھتے ہیں کہ ’مسجد کی تعمیر میں 100 صندوق صرف ہوئے ہر صندوق میں دو لاکھ 28 ہزار دینار تھے۔ مسجد کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں مکڑی جالا اور ابابیل گھونسلا نہیں بنا سکتی۔ یہاں بیک وقت مالکی، شافی، حنفی اور حنبلی امام اپنے اپنے مخصوص حصوں میں نمازوں کے امامت کراتے رہے ہیں۔
آگ، خاک اور خون کی گواہی
750 میں امویوں کے بعد جب عباسی برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے اپنا دارالخلافہ دمشق سے بغداد منتقل کر دیا یوں اگلی دو صدیوں میں مسجد شاہی توجہ سے محروم رہی۔ عالمِ اسلام کی اس عظیم مسجد کی اہمیت اور شان کو دیکھتے ہوئے دمشق کے عباسی گورنر الفادی ابن صالح ابن علی نے 780 میں مسجد کے مشرقی حصے میں نمازوں کے اوقات بتانے والا ایک گنبد بنایا۔ نویں صدی کے عرب جغرافیہ دان المقدسی کے بقول 831 میں عباسی خلیفہ المامون کے دور میں شمالی جانب ایک اور مینار بنایا گیا، جسے ’مینار عروس‘ کہا جاتا ہے۔ مامون نے اموی خلفا کے احکامات مسجد سے ہٹوا دیے۔
عباسیوں کے زوال کے بعد جب 970 میں فاطمیوں نے دمشق فتح کیا تو انہوں نے بھی مسجد میں کچھ ترمیم و اضافہ کیا۔ 1069 میں فاطمی فوج اور دمشق کے شہریوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں مسجد کی شمالی دیوار آگ لگنے سے شدید متاثر ہوئی۔
1078 میں جب سلجوقیوں نے دمشق کا انتظام سنبھالا تو انہوں نے عباسیوں کوبھی محدود اختیارات دیے۔ سلجوق بادشاہ طوطش نے مسجد کو آگ سے ہونے والے نقصان پر اس کی مرمت کی۔ 1082 میں ان کے ایک وزیر ابو نصر نے مسجد کے مرکزی گنبد کی تعمیرِ نو کی اور شمالی سمت کچھ برآمدے بنوائے۔ دمشق کے گورنر تغتکین نے مسجد کے دروازوں پر اپنی تختیاں نصب کروائیں۔
جب مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان بیت المقدس پر قبضے کی جنگ ہو رہی تھی تو یہ مسجد اہم جہادی مرکز بنی ہوئی تھی۔ اسی دوران یہاں پر 1113 میں موصل کے سلجوق گورنر شرف الدین مودود کو قتل کر دیا گیا۔ جب صلیبیوں نے 1148 میں مسجد کی طرف یلغار کی تو اسی مسجد کے امام ابن عساکر کی آواز پر مسلمانوں نے یہ حملہ پسپا کر دیا۔
1173 میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسجد میں آگ سے متاثرہ حصوں کی مرمت کروائی۔ بعد میں ان کے جانشینوں کے درمیان ہونے والی لڑائیوں میں مسجد کے میناروں کو نقصان پہنچا۔
1260 میں جب منگولوں نے عیسائیوں کی مدد سے دمشق پر قبضہ کر لیا تو ایک مسیحی جنرل نے مسجد کو کلیسا میں بدل دیا لیکن ایک سال کے اندر ہی مملوکوں نے دمشق کو واگزار کرا لیا۔ بابر سلطان نے مسجد کی بحالی کے لیے 20 ہزار دینار کی لاگت سے کافی کام کرائے۔ 1285 میں مسلم مفکر ابن تیمیہ بھی یہاں پر درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
اس دوران جب 1300 میں منگولوں نے دوبارہ حملہ کیا تو یہ ابن تیمیہ ہی تھے جن کی آواز پر مسلمانوں نے منگولوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس دوران مسجد کو کافی نقصان ہوا کیونکہ مسجد میدان جنگ بن گئی تھی۔ مملوک گورنر طنکیز نے 1326-28 میں مسجد کی ایک بار پھر تعمیرومرمت کرائی۔ نئے فرش اور محراب بنائے گئے۔ باب الزیدہ کو مشرق کی طرف کھول دیا گیا۔
مسجد چونکہ وسیع و عریض تھی اس لیے اسے روشن رکھنے کے لیے چراغ جلائے جاتے تھے۔ جنگ اگر نہ ہوتی تو ذرا سی بے احتیاطی سے آگ بھڑک اٹھتی جو مسجد کو خاکستر کر دیتی۔ ایسا ہی ایک سانحہ 1339 میں بھی پیش آیا۔ 1392 میں عیسی ٰ مینار بھی جل کر گر گیا۔ 1400 میں پھر منگولوں نے دمشق پر قبضہ کر کے شہر بھر کو نذرِ آتش کیا تو مسجد کے مرکزی گنبد سمیت کئی مینار زمین بوس ہو گئے۔ 1488 میں مملکوک سلطان قائطبے کے دور میں جنوبی سمت میں مزید نئے مینار بنائے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1516 میں عثمانی خلیفہ سلیم اوّل نے مملوکوں سے دمشق لے لیا تو انہوں نے یہاں نماز جمعہ پڑھی اور اپنے نام کا خطبہ جاری کیا۔ عثمانیوں نے اموی مسجد کو وقف میں بدل دیا جہاں عوام کی رہنمائی کے لیے حکومت کے 596 نمائندے ہر وقت موجود رہتے۔ 1518 میں دمشق کے عثمانی گورنر جانبردی الغزالی نے مسجد میں مزید توسیع و مرمت کا کام کیا۔ 1893 میں مسجد کو ایک بار آتشزدگی نے آ لیا۔ 1929 میں فرانسیسیوں کے دور میں بھی مسجد کی تعمیر و بحالی کا کام ہوا۔ پھر 1954 اور 1963 میں شامی ریپبلک عہد میں مزید کام ہوا۔
حافظ الاسد نے بھی مسجد کو خصوصی توجہ دیے رکھی اور 1980 سے 1990 کے دوران کافی وسیع کام کرایا جس پر یونیسکو نے تنقید بھی کی۔ 2001میں پوپ جان پال دوم نے حضرت یحییٰ کے مزار پر حاضری دینے کے لیے مسجد کا دورہ بھی کیا۔
مسجد میں ابن الساعاتی کی عجیب و غریب گھڑی
نورالدین زنگی کے عہد 1154 میں مسجد میں ایک عجیب و غریب گھڑی نصب کی گئی جو نامور مسلمان ماہر نجوم ابن الساعاتی کی اختراع تھی۔ یہ گھڑی عجیب تھی، دیوار میں طاق کی شکل کا ایک دریچہ تھا جس میں بارہ چھوٹے چھوٹے پیتل کے طاقچے تھے۔ ان طاقچوں میں بارہ چھوٹے چھوٹے دروازے تھے ، پہلے اور آخری طاقچے کے نیچے دو باز بنے ہوئے تھے جو پیتل کی تھالیوں پر کھڑے تھے۔ جب ایک گھنٹہ گزر جاتا تو دونوں باز اپنی گردنیں بڑھاتے اور چونچ سے ان تھالیوں میں اس انداز سے پیتل کی گولیاں گراتے کہ جادو معلوم ہوتا تھا، گولیوں کے گرنے سے گونج پیدا ہوتی اور طاقچے کا دروازہ جو اسی گھنٹے کے لیے بنا تھا خود بخود بند ہو جاتا۔ اس طرح جب ایک دور ختم ہو جاتا تو تمام دروازے بند ہو جاتے۔
مسجد کی میناکاری اور چھتوں پر نصب رنگ برنگے شیشوں سے منعکس ہونے والی روشنی ایسا سماں پیدا کرتی کہ دیکھنے والوں کو جادو نگری معلوم ہوتی۔ یہاں پانی کے لیے بنائے گئے حوض اور مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہوا کا انتظام، سب کچھ اپنے بنانے والوں کے ذوق اور مہارت کا آئینہ دار تھا۔ اگرچہ آج اس کے وہ حصے تو موجود نہیں ہیں لیکن یہ اپنی پوری تاریخ اور تہذیبی روایت کے ساتھ کھڑی ہے۔ کوئی فاتح جب تک اس کے منبر پر نہیں بیٹھتا دمشق کا تخت اس کا مقدر نہیں بنتا۔