خواتین پر کوئی پابندیاں نہیں لگائیں گے: شامی عبوری حکومت

سابق صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے بعد بننے والی شامی عبوری حکومت نے ملک میں شخصی آزادی کی ضمانت دینے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین پر مذہبی لباس کی کوئی پابندی نافذ نہیں کرے گی۔

9 دسمبر، 2024 کو شام کے شہر حلب، میں خواتین تباہ شدہ عمارتوں کے پاس سے گزر رہی ہیں (روئٹرز/کرم المصری)

سابق صدر بشار الاسد کا تختہ الٹے جانے کے بعد بننے والی شام کی عبوری حکومت نے ملک میں ہر ایک کے لیے شخصی آزادی کی ضمانت دینے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین پر مذہبی لباس کی کوئی پابندی نافذ نہیں کرے گی۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں عبوری حکومت کی جنرل کمان نے کہا کہ ’خواتین کے لباس میں مداخلت کرنا یا ان کے لباس یا ظاہری شکل سے متعلق کوئی پابندی عائد کرنا سختی سے منع ہے، جس میں شائستگی (اخلاقی اقدار) کی پیروی بھی شامل ہے۔‘

قیادت نے کہا کہ ملک کی نئی عبوری انتظامیہ اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ ’ہر شخص کو ذاتی حیثیت میں آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے اور یہ کہ افراد کے حقوق کا احترام ایک مہذب قوم کی تعمیر کی بنیاد ہے۔‘

سال 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے شام کی اس وقت کی حزب اختلاف کے زیر اثر علاقوں میں خواتین کی اکثریت مذہبی لباس زیب تن کرتی تھی جس میں محض ان کے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ پورا جسم ڈھکا ہوتا تھا۔

دوسری جانب شامی عبوری حکومت کے رہنما ابو محمد الجولانی، جن کی افواج دو روز قبل دمشق میں داخل ہوئیں، نے القاعدہ سے اپنے دیرینہ تعلقات ترک کرنے اور خود کو معتدل اور روادار رہنما ثابت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

عبوری انتظامیہ کا تشدد کے لیے مطلوب سابق اہلکاروں کی 'لسٹ' کا اعلان

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شامی رہنما نے منگل کو کہا کہ عبوری انتظامیہ ایک فہرست کا اعلان کرے گی جس میں شامی عوام کو اذیت دینے میں ملوث سب سے اعلیٰ عہدیداروں کے نام شامل ہوں گے۔

ابو محمد الجولانی نے ٹیلی گرام پر ایک بیان میں کہا: ’ہم ہر اس شخص کو انعامات کی پیشکش کریں گے جو جنگی جرائم میں ملوث اعلیٰ فوج اور سکیورٹی افسران کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ عبوری حکومت جرائم میں ملوث ملک سے فرار ہونے والوں کی واپسی کا مطالبہ بھی کرے گی۔

سلامتی کونسل کا شام کی صورت حال پر غور

بند کمرے کے اجلاس میں شریک سفیروں کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان نے پیر کی شب صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد شام کی موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور مزید پیش رفت کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔

روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے صحافیوں کو بتایا کہ ’میرے خیال میں کونسل شام کی علاقائی سالمیت اور اتحاد کو برقرار رکھنے، شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے، انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر کم و بیش متحد تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماسکو نے ہی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی تھی۔

روسی مندوب نے مزید کہا: ’لیکن حالیہ واقعات نے سب کو حیران کر دیا، اس لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا، یہ دیکھنے کے لیے کہ حالات کیا کروٹ لیتے ہیں۔‘

نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈز نے اسے ’بہت ہی تیزی سے بدلتی صورت حال‘ قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’کسی کو توقع نہیں تھی کہ شامی افواج تاش کے پتوں کی طرح گریں گی۔‘

ووڈز نے کہا: ’جیسا کہ بہت سے لوگوں نے مشاورت میں کہا کہ صورت حال انتہائی غیر واضح ہے اور امکان ہے کہ یہ تیزی سے رخ بدلے گی۔‘

تاہم، ووڈز نے کہا کہ ’کونسل کے ہر ایک رکن نے شام کی خودمختاری، علاقائی سالمیت، آزادی کا احترام کرنے کی ضرورت، اور انسانی صورت حال کے بارے میں تشویش کے بارے میں بات کی۔‘

انہوں نے کہا کہ کونسل کا ارادہ شام کی صورت حال پر یک آواز ہو کر بات کرنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا