پاکستان کے دفتر خارجہ نے بدھ کو کہا کہ شام میں اسرائیلی جارحیت اور غیر قانونی طریقے سے جنوبی حصے پر قبضے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
اتوار کو شام کے صدر بشار الاسد کی معزولی کے بعد اسد خاندان کی 54 سالہ حکمرانی ختم ہو گئی۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں اسرائیلی کارروائیوں پر کہا کہ ’شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر یہ حملہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی اشتعال انگیز اقدامات پہلے سے غیر مستحکم خطے میں ایک خطرناک پیش رفت ہیں۔
’اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی تسلسل میں کی ہے۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ نے ردعمل میں کہا کہ ’ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 497 کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں، جو گولان ہائٹس پر اسرائیل کے قبضے کو ’کالعدم اور بین الاقوامی قانونی حیثیت کے بغیر‘ قرار دیتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان نے اپنے بیان میں اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات لے اور عالمی قوانین کی اسرائیل کی جانب سے متواتر خلاف ورزیوں کے خلاف اقدامات لے۔
پاکستان نے بیان میں اس بات کو دہرایا کہ مقبوضہ فلسطین اور شام کے گولان سمیت دیگر مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کے مکمل انخلا کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
1973 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے بعد قائم کیے گئے غیر فوجی علاقے میں اسرائیلی فوج نے دراندازی کی اور کہا کہ یہ اقدامات سرحدی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک عارضی طور پر ہیں۔
اسرائیل کا مقصد جنوبی شام میں ایک ’صاف دفاعی زون‘ نافذ کرنا ہے جو مستقل فوجیوں کی موجودگی کے بغیر ہو گی۔
اسرائیلی وزیر دفاع بینی کاٹز نے منگل کو کہا کہ کیونکہ فوج نے کہا کہ فضائی حملوں کی لہر نے شام کے سٹریٹجک ہتھیاروں کے ذخیرے کو تباہ کر دیا ہے۔
گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج نے کہا کہ جیٹ طیاروں نے شام میں 480 سے زائد فوجی اہداف پر حملے کیے ہیں۔
شام میں موجود پاکستانی
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ شام میں بدلتی صورت حال کو مسلسل دیکھا جا رہا ہے۔ بیان میں کے مطابق شام میں موجود پاکستانی محفوظ ہیں اور انہیں احتیاط برتنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ شام سے وطن واپسی کے خواہاں پاکستانیوں کو بذریعہ ہمسایہ ممالک جلد از جلد محفوظ انخلا کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔ انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ اس مقصد کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔
پیر کو دمشق میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک عہدے دار محمد نفیس نے عرب نیوز کو فون پر بتایا کہ
شام میں تقریباً 1200 پاکستانی مقیم ہیں، جن میں ایک مذہبی سکول کے 58 طلبا بھی شامل ہیں۔
’ان میں سے 250 افراد نے سفارت خانے کے فراہم کردہ فارم کے ذریعے ہم سے رابطہ کر کے پاکستان واپسی کی خواہش ظاہر کی ہے۔‘
شام میں اقتدار کی تبدیلی
جب اسلام پسند باغی دارالحکومت دمشق میں داخل ہوئے تو بشارالاسد وہاں سے فرار ہو گئے۔ انہوں نے 2011 میں شروع ہونے والی جمہوریت کی تحریک پر کریک ڈاؤن کی نگرانی کی جس کے نتیجے میں جنگ چھڑ گئی جس نے پانچ لاکھ افراد کی جان لی اور آدھے ملک کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا جن میں سے لاکھوں افراد نے بیرون ملک پناہ لی۔
ہزاروں شامی شہری پیر کو ایک جیل کے باہر جمع ہوئے جو بشار الاسد کی حکمرانی کے ’بدترین مظالم‘ کی علامت کے طور پر جانی جاتی ہے، تاکہ اپنے رشتہ داروں کی تلاش کر سکیں، جن میں سے کئی تو برسوں سے دمشق کے باہر واقع صیدنایا جیل میں قید تھے۔
رہائی پانے والے قیدیوں کے ہجوم دمشق کی سڑکوں پر گھومتے نظر آئے، جنہیں ان کے مصائب کے نشانات سے پہچانا جا سکتا تھا۔ وہ اذیت کے باعث اپاہج، بیماری سے نڈھال اور بھوک کے باعث ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو چکے تھے۔
دوسری جانب شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد محمد البشیر کو عبوری حکومت کا وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے، جو یکم مارچ 2025 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔