شام کی حزب اختلاف کے کارکنان دارالحکومت دمشق میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں دہائیوں سے اقتدار پر قابض بشار الاسد اپنے طیارے پر نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو گئے اور یہ صورت حال مشرق وسطیٰ میں ایک نئی کروٹ کی عکاسی کر رہی ہے۔
لیکن دو ہفتوں کے اندر شام میں یہ انقلاب برپا کرنے والے حزب اختلاف کے اتحاد ’ہیئت تحریر الشام‘ (ایچ ٹی ایس) اور اس کے سربراہ ابو محمد الجولانی کو بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔
برطانوی اخبار دا گارڈین کے مطابق ابو محمد الجولانی 1982 میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے اور انہوں نے دمشق کے ایک پوش علاقے مزہ میں پرورش پائی۔
الجولانی نے 27 نومبر کو شامی حکومت کو گرانے کے لیے شروع کی گئی کارروائیوں کے دوران اپنے اصلی نام احمد حسین سے اپنے بیانات جاری کرنے کا آغاز کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2021 میں ابو محمد الجولانی نے امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کو بتایا کہ ان کا نام گولان کی پہاڑیوں سے ان کے خاندان کے تعلق کی وجہ سے پڑا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے دادا کو 1967 میں اسرائیل کے اس علاقے پر قبضے کے بعد فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
لیکن ایک لبنانی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ الجولانی حقیقت میں عراقی شہری ہیں اور ان کے نام کی وجہ فلوجہ کا وہ علاقہ ہے، جسے الجولان کہتے ہیں اور ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔
مڈل ایسٹ آئی نیوز ویب سائٹ کے مطابق 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کے بعد الجولانی پہلی بار شدت پسندانہ سوچ کی طرف راغب ہوئے۔
کئی مغربی رپورٹس کے مطابق ابو محمد الجولانی نے دمشق میں طب کی تعلیم حاصل کی لیکن میڈیکل کالج کے اپنے تیسرے سال کے دوران عراق پر امریکہ کے 2003 میں حملے کے بعد انہوں نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کر لی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق کہا جاتا ہے کہ ابو محمد الجولانی جلد ہی عراق میں القاعدہ کے سرگرم رہنما ابو مصعب الزرقاوی کے قریبی ساتھی بن گئے لیکن 2006 میں الزرقاوی کی موت کے بعد وہ لبنان منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے جند الشام نامی لبنانی عسکری گروہ کو تربیت فراہم کی۔
اس کے بعد ابو محمد الجولانی کی عراق واپسی کی رپورٹس ملیں، جہاں امریکی فوج نے مبینہ طور پر انہیں گرفتار کیا اور کچھ عرصے تک قید میں رہنے کے بعد جب 2008 میں انہیں رہا کیا گیا تو وہ القاعدہ چھوڑ کر داعش میں شامل ہو گئے۔
رپورٹس کے مطابق ابو محمد الجولانی کو امریکہ کے بدنام زمانہ کیمپ بکا میں رکھا گیا تھا، جہاں ان کے شدت پسند نظریات پختہ ہوئے اور مستقبل میں بننے والی تنظیم داعش کے رہنماؤں سے تعلقات بھی استوار ہوئے۔
لیکن چند رپورٹس کے مطابق وہ داعش میں شامل نہیں ہوئے بلکہ اگست 2011 میں شام واپس لوٹنے کے بعد انہوں نے القاعدہ کی ایک نئی شاخ کھولی، جس کا مقصد صدر بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ تھا۔
گارڈین کے مطابق2013 میں الجولانی نے داعش کے امیر ابوبکر البغدادی کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے القاعدہ کے ایمن الظواہری کے ساتھ اپنی وفاداری کا عہد کیا۔
بعض رپورٹس کے مطابق کئی سالوں بعد انہوں نے داعش اور القاعدہ سے تعلق توڑ لیا اور روایتی پگڑی کی بجائے ٹی شرٹس اور ٹراؤزر میں نظر آنا شروع کر دیا۔
گارڈین کے مطابق 2016 میں القاعدہ سے تعلقات توڑنے کے بعد سے الجولانی نے خود کو زیادہ اعتدال پسند رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ ابھی تک تجزیہ کاروں اور مغربی حکومتوں کے شکوک و شبہات کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو اب بھی ان کی تنظیم ایچ ٹی ایس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہیں۔
اپنے حامیوں کی نظر میں ایک حقیقت پسند رہنما ابو محمد الجولانی نے مئی 2015 میں کہا تھا کہ وہ داعش کے برعکس مغرب کے خلاف حملے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر بشار الاسد کو شکست دی جائے تو علوی اقلیت کے خلاف انتقامی حملے نہیں ہوں گے۔
انہوں نے القاعدہ سے تعلقات منقطع کرنے کا دعویٰ کیا تاکہ مغرب کی جانب سے اپنی تنظیم پر حملہ کرنے کی وجوہات کو ختم کیا جا سکے۔
جنوری 2017 میں الجولانی نے شمال مغربی شام میں حریف اسلام پسند گروپوں پر ایچ ٹی ایس کے ساتھ انضمام نافذ کیا، اس طرح صوبہ ادلب کے کچھ حصوں پر کنٹرول کا دعویٰ کیا، جو حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
اپنی گرفت میں آنے والے علاقوں میں ایچ ٹی ایس نے ایک سویلین حکومت قائم کی اور اپنے حریفوں کو کچلتے ہوئے صوبہ ادلب میں ایک ریاست کی تشکیل کی۔ اس پورے عمل کے دوران ایچ ٹی ایس کو مقامی رہائشیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ان لوگوں کے خلاف ’وحشیانہ زیادتیوں‘ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا، اقوام متحدہ نے بھی ان کے اقدامات کو جنگی جرائم کے طور پر بیان کیا تھا۔
ایک ہفتے قبل اپنے گروپ کے خوف اور نفرت سے آگاہ الجولانی نے حلب کے رہائشیوں سے خطاب کیا، جو کہ ایک بڑی مسیحی اقلیت کا مسکن ہے، انہیں یقین دلانے کے لیے کہ ان کی نئی حکومت میں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
انہوں نے اپنے جنگجوؤں سے ان علاقوں میں سلامتی کو برقرار رکھنے کا مطالبہ بھی کیا، جنہیں انہوں نے اسد خاندان کی حکمرانی سے ’آزاد‘ کروایا ہے۔