افغانستان میں جاری سترہ سالہ پرانی لڑائی کو ختم کرنے کے لیے امریکہ اور افغانستان کے درمیان امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ یہ معاہدہ کامیاب ہوگا یا ناکام دونوں صورتوں میں خیال کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ جڑے پاکستان کے قبائلی اضلاع میں موجود ”گڈ اور بیڈ” طالبان ایک نئی شکل اختیار کریں گے۔
پاکستان کے قبائلی اضلاع کا تعلق افغانستان کے ساتھ صرف طالبان کی حد تک محدود نہیں بلکہ افغانستان میں ہر قسم کی تبدیل ہوتی صورتحال کا اثر ان علاقوں پر پڑتا ہے۔ اگر افعانستان میں امن قائم ہو تو قبائلی اضلاع میں بھی سکون رہتا ہے۔اگر بدامنی ہو تو قبائلی اضلاع بالخصوص وزیرستان پر اس کے گہرے اثرات پڑتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی افغانستان میں انقلاب روس کے دوران قبائلی اضلاع جہادیوں کا مرکز رہے اور طالبان دور میں بھی مسلح جنگجوں کے مراکز بعض اوقات افعانستان سے زیادہ قبائلی اضلاع میں تھے۔ جس کے خلاف کارروائی سے نہ صرف القاعدہ اور طالبان بلکہ پوری پٹی متاثر ہوئی۔
قبائلی اضلاع میں موجود طالبان کے تمام دھڑے ملا عمر کو اپنا امیرالامومنین مانتے تھے ان کے بعد جو بھی جانشین بنا ہے قبائلی اضلاع میں موجود ہر ایک دھڑے نے ان پر بیعت کی ہے۔ اور ہر دھڑا اپنے آپ کو افغان طالبان کے قریب سمھجتا ہے خواہ وہ پاکستان کی نظر میں بیڈ ہے یا گڈ لیکن افغان طالبان سے ناطہ نہیں توڑتے۔
مبصرین کے خیال میں افغانستان سے امریکہ کا نکل جانا اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی یقینی نہیں۔ اگر امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہو بھی جائے تب بھی اس کے بعد ہی اصل مشکل مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔
افغان طالبان (جو اپنے آپ کو اسلامی امارات افغانستان کہلواتے ہیں) اور کابل میں اشرف غنی حکومت کے درمیان مذاکرات میں اہم سوال یہ ہوگا کہ افغانستان میں نظام حکومت کیسا ہوگا؟ جمہوری یا اسلامی شریعی نظام؟
طالبان کے مذہبی نظریہ کے مطابق وہ جمہوریت اور ووٹنگ کے عمل کو نہیں مانتے اور اسلامی شریعت چاہتے ہیں۔
اسلامی شریعت کے احکامات نہ ماننے کی صورت میں خدشہ ہے کہ طالبان دوبارہ جنگ میں کود سکتے ہیں۔
مبصرین کے خیال میں قبائلی اضلاع میں طالبان کی قوت کمزور پڑ گئی ہے۔ البتہ افغانستان میں طالبان کی پوزیشن مضبوط ہے۔ وہ نہ صرف افغانستان کے بڑے حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں بلکہ کابل کے قریب سرے پل کی اہم شاہراہ اور تیل کے کنووں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
امریکہ کی غیرموجودگی میں کابل حکومت جو کمزوری اور انتشار کا شکار ہے طالبان کے سامنے نہیں ٹھر سکےگی اور افغانستان میں طالبان کے آنے کے نتیجہ میں پورے خطے میں خانہ جنگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ جس کا اثر براہ راست قبائلی پٹی پر ہوگا۔
گذشتہ ہفتے قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان چھ روز تک مذاکرات جاری رہے۔ افغان صدر نے طالبان کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش کی تھی لیکن انھوں نے حکومت کو ’کٹھ پتلی‘ کہتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔
اگر طالبان اسلامی نظام کے مطالبہ سے دستبردار ہوگئے اور امن مذاکرات ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے تو پورے خطے میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور قبائلی اضلاع میں طالبان برائے نام رہ جائیں گے۔ لوگوں کے دلوں سے طالبان کا خوف ختم ہوجائےگا اور وہ انہیں مختلف معاملات میں پیسے دینا بھی بند کر دیں گے۔
درحقیقت قبائلی اضلاع میں اس وقت طالبان پیسوں کی خاطر موجود ہیں اور منافع کی جنگ لڑ رہے ہیں تاہم عام شہریوں کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ختم ہوچکی ہیں اور اگر کہیں ہیں تو وہ محض بندوق کے زور پر ہیں۔
مقامی طالبان کے باوثوق ذرائع کے مطابق افغان طالبان امن مذاکرات کو کامیاب کرنے کے لیے افغانستان میں امریکہ کے چار اڈوں کے موجودگی پر رضامند نظر آرہے ہیں۔
البتہ افغان طالبان کے کچھ اہم کمانڈر اس بات پر دیگر طالبان کے ساتھ متفق نظر نہیں آرہے ہیں۔ انہوں نے پہلے سے داعش جیسی تنظیم سے رابطے قائم رکھے ہیں۔ کوئٹہ شوری کے ایک اہم رہنماء مولوی خادم پہلے سے ہی داعش چلے گئے ہیں۔ اس طرح ملا منان اور ملا رسول طالبان کے خلاف بول رہے ہیں اور داعش کے حامی نظر آ رہے ہیں۔
اس صورت حال میں قبائلی اضلاع میں موجود اکثر دھڑے پاکستانی حکومت کے حامی طالبان ہیں۔اور یہ طالبان وہی راستہ احتیار کریں گے جو حکومت پاکستان بتائے گی۔
ان میں سے جو پاکستان کے مخالف ہیں وہ داعش میں چلے جائیں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں موجود طالبان نے اپنے علاقے میں اپنے ہی لوگوں سے دشمنیاں پیدا کی ہیں جس کی وجہ سے بندوق اُٹھانے کے سوا ان کے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں۔
اگر طالبان نہیں رہے تو یہ لوگ مجبورا داعش میں شامل ہوں گے۔ ہتھیار پھینکنے کی صورت میں اپنے علاقوں میں رہنا ان کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔
اس کے علاوہ قبائلی اضلاع میں موجود طالبان کو مبینہ طور پہ غیر ملکی فنڈنگ غیر ملکیوں یعنی القاعدہ کی وجہ سے مل رہی تھی۔ عام رائے کے مطابق جب وہ علاقے سے بے دخل ہوگئے تو اس کے بعد حکومت پاکستان نے ان طالبان کو امن کمیٹوں کے نام پر مختلف طریقوں سے فنڈ بنانے کا راستہ دیا۔
گمان کیا جاتا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے وجود میں آنے کے بعد وہ طریقے بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
مقامی ذرائع کے مطابق جس طرح وانا میں امن کمیٹی کے نام پر فی دوکان پانچ سو روپے لیے جاتے تھے اور جو مہینے میں تیس لاکھ سے زیادہ رقم بنتی تھی، پحتون تحظ موومنٹ کے ساتھ جھگڑے کے بعد یہ فنڈز بھی بند ہوگئے ہیں۔ البتہ مبینہ طور پر طالبان کی قوت کو برقرار رکھنے کے لیے انگور اڈہ گیٹ پر غیرقانونی اور غیرملکی سامان کو پاکستان میں لانے کے لیے امن کمیٹی کی پرچی کو سرکاری طور پہ راہداری کا درجہ دے کر روزانہ لاکھوں روپے کمانے کا ایک اور موقع دیا ہے۔ لیکن یہ بھی زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا۔
حالات جو بھی ہوں لیکن قبائلی اضلاع کے لوگ افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے پراُمید ہیں کہ یہ کامیاب ہوں گے اور قبائلی اضلاع میں ایک نئی صبح کا آغاز ہو گا، عوام کو ایک نئی اور پرامن زندگی ملے گی۔