پاکستان کے شمالی علاقے بلتستان میں واقع سکردو شہر سے محض دس کلومیٹر دور، قدرتی حسن سے بھرپور جھیل سدپارہ کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں سدپارہ آباد ہے۔ اس گاؤں کے باسی بظاہر ایک سادہ زندگی گزارتے ہیں، مگر ان کے دل پہاڑوں کی بلندیوں جتنے عظیم، حوصلے برفانی چوٹیوں جتنے بلند اور جذبے آسمانوں سے اونچے ہیں۔
سدپارہ کو بجا طور پر پاکستان کا ’منی شرپا گاؤں‘ کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہاں کا ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی صورت میں کوہ پیمائی یا پہاڑی سیاحت سے منسلک ہے۔
وراثت میں ملنے والا عشقِ پہاڑ
گرمیوں کے موسم میں جب وادیوں میں زندگی رواں دواں ہوتی ہے، سدپارہ کے شہری کے ٹو، نانگا پربت، براڈ پیک، جی ون، جی ٹو اور دیگر خطرناک چوٹیوں کی جانب روانہ ہوتے ہیں، ان کے کندھوں پر صرف سامان نہیں، خواب اور امیدیں ہوتی ہیں۔ ان کے قدم صرف برف نہیں توڑتے، بلکہ پاکستان کے پرچم کو دنیا کی چھت پر لہرانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
سدپارہ نے ملک کو کئی عظیم کوہ پیما دیے، جنہوں نے اپنے خون اور پسینے سے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا، ان میں محمد علی سدپارہ، حسن سدپارہ، نثار سدپارہ، شریف سدپارہ اور مراد سدپارہ جیسے نام شامل ہیں۔
یہ نام اب صرف کتب یا اخباری رپورٹس تک محدود نہیں، بلکہ ہر بلتی بچے کے دل میں امید اور فخر کی مانند بستے ہیں۔
ان ہی کوہ پیماؤں کے نقشِ قدم پر چلنے والے امتیاز حسین، جنہوں نے 2017 میں کوہ پیمائی کا آغاز کیا اور صرف چند سالوں میں اپنی مہارت اور حوصلے سے دنیا کو حیران کر دیا۔
وہ اب تک 10 بار 8000 میٹر سے بلند چوٹیوں کو سر کر چکے ہیں — جن میں نو بار بغیر آکسیجن کے اور ایک بار آکسیجن کے ساتھ کامیابیاں حاصل کیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے امتیاز نے بتایا کہ ’ہم پہاڑوں میں پیدا ہوئے ہیں، ان سے محبت ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ ہمیں بلندیوں سے خوف نہیں آتا۔ پہاڑ ہمارے لیے کھیل ہیں مگر یہ کھیل قربانی، مہارت اور جذبہ مانگتا ہے۔‘
انہوں نے تین بار کے ٹو، تین بار براڈ پیک، دو بار نانگا پربت، اور ایک ایک بار جی ون اور جی ٹو کو سر کیا ہے۔ امتیاز نہ صرف کوہ پیما ہیں، بلکہ ریسکیو کلائمر بھی ہیں۔ وہ چار بڑے ریسکیو مشنز میں حصہ لے چکے ہیں، جن میں دو موسم سرما اور دو موسم گرما کے تھے۔
امتیاز کا کہنا ہے کہ ’شرپا ہونا صرف پہاڑ چڑھنے کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل سائنسی اور جسمانی تربیت کا عمل ہے۔
’ایک اچھے شرپا کے لیے روپ فکسنگ، آئس کلائمبنگ، سنو کلائمبنگ اور ساز و سامان کی مکمل سمجھ ہونی چاہیے۔ ہم نیپالی شرپاؤں سے ٹریننگ لیتے ہیں، مگر ہمارے لیے یہ کام آکسیجن کے بغیر ہوتا ہے، جو زیادہ مشکل ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی شرپا اگر سہولیات اور سپانسرشپ کے لحاظ سے نیپالی شرپاؤں جتنے مضبوط ہو جائیں، تو وہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام مزید روشن کر سکتے ہیں۔‘
ہم بغیر کسی حکومتی مدد کے صرف جذبے کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ہیروز کھوئے، جیسے محمد علی سدپارہ، مگر ہمارے دلوں میں آج بھی بلندیاں سر کرنے کی لگن ہے۔‘
امتیاز حسین کا کہنا ہے کہ ’ہمیں کوئی سپانسر نہیں ملتا، ہم صرف پاکستان کے جھنڈے کے لیے جاتے ہیں۔ یہ ہمارا جنون، ہمارا عشق ہے۔‘
سدپارہ کے ایک اور تجربہ کار کوہ پیما اشرف حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہم بغیر کسی حکومتی مدد کے صرف جذبے کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ہیروز کھوئے، جیسے محمد علی سدپارہ، مگر ہمارے دلوں میں آج بھی بلندیاں سر کرنے کی لگن ہے۔‘