افغان بیوٹی کوئین رویا کریمی حدوں کو پھلانگنے پر خوش

29 سالہ رویا کریمی 2011 میں کابل سے ناروے منتقل ہو گئیں تھیں جہاں انہوں نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔

رویا کریمی کا خیال ہے کہ اس کھیل کا انتخاب خواتین کے لیے بہت سے چیلنجز کا باعث بنتا ہے (رویا کریمی/انسٹاگرام)

رویا کریمی، ایک افغان بیوٹی کوئین جنہوں نے 2025 یورپی چیمپیئن شپ کے لیے کوالیفائی کیا ہے، اپنی اس کامیابی کو انفرادی کامیابی سے بڑھ کر حدوں کو پھلانگنے کی علامت کے طور پر دیکھتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں انہوں نے لکھا: ’ایک افغان لڑکی کے طور پر یورپی چیمپیئن شپ میں جانا صرف ذاتی اعزاز نہیں ہے، اس کا مطلب ہے سرحدوں کو آگے بڑھانا، نہ صرف کھیلوں میں، بلکہ زندگی میں۔ ہمیں خواب دیکھنے، جدوجہد کرنے اور اپنی آواز سننے کا بھی حق ہے۔‘

29 سالہ رویا کریمی 2011 میں کابل سے ناروے منتقل ہو گئیں تھیں۔ انہوں نے ناروے میں نرسنگ کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔

ان کے مطابق افغانستان میں ان کی زبردستی شادی کر دی گئی اور ان کی زندگی گھر کے کام کاج تک محدود تھی لیکن نقل مکانی کے بعد وہ نرسنگ میں اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے علاوہ اپنے بچے کی پرورش کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ طور پر کھیلوں کی دنیا میں قدم رکھنے میں کامیاب ہو گئیں۔

انہوں نے صحت اور غذائیت میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور اس شعبے میں باقاعدہ کوچنگ کی سند حاصل کی۔

کریمی نے تقریباً 10 سال قبل باڈی بلڈنگ کا آغاز کیا تھا اور وہ اپنے ساتھی کمال کے ساتھ گذشتہ چند سالوں سے پیشہ ورانہ طور پر اس شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے 2021 میں ایک تقریب میں کمال سے شادی کی۔ ان کا نیا ساتھی ان کی کھیلوں کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اس کے اہم چیئر لیڈروں میں سے ایک ہے۔

 کریمی کا خیال ہے کہ اس کھیل کا انتخاب خواتین کے لیے بہت سے چیلنجز کا باعث بنتا ہے، اور یہ کہ باڈی بلڈنگ جسم پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے کچھ لوگوں کے لیے ایک حساس کھیل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یورپی چیمپئن شپ کے لیے ان کی کوالیفائی کرنے کی خبر جاری ہونے کے بعد انہیں ملے جلے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ حمایت کے پیغامات کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں نے ان پر تنقید بھی کی اور ان کی تصاویر کی اشاعت کو افغان ثقافت کے منافی قرار دیا۔

 اس تنقید کے جواب میں انہوں نے ایک انسٹاگرام لائیو کے دوران اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’میں اپنے کیے پر معافی نہیں مانگتی۔ افغان خواتین کی سب سے بڑی کامیابی ان کا وجود ہے۔ ایسی جگہ پر آواز اٹھانے کے قابل ہونا جہاں معاشرہ اور حکومت اس کے وجود سے انکاری ہو۔‘

کریمی نے اپنے تنقید کرنے والے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ مسائل کو صرف پدرانہ فریم ورک کے اندر نہ دیکھیں اور انسانیت کا احترام کریں۔

کابل میں 2015 میں فرخندہ ملک زادہ کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغان خواتین کے مسائل صرف طالبان تک محدود نہیں ہیں اور عوامی ثقافت میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

کریمی نے اعلان کیا ہے کہ تنقید اور منفی ماحول کے باوجود وہ فائنل میچ کے لیے تیاریاں کر رہی ہیں جو کہ اگلے دو ہفتوں میں ہو گا۔

افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان دوسری بار اقتدار میں واپس آئے۔ اس کے بعد افغان خواتین اور لڑکیوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ انہیں ثانوی اور اعلیٰ تعلیم سے محروم کر دیا گیا، اور کھیلوں سمیت عوامی مقامات پر ان کی موجودگی پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

اس سے قبل افغانستان نے 2004 سے 2021 تک خواتین کے کھیلوں میں پابندیوں کے باوجود نمایاں پیش رفت حاصل کی۔ اس دوران افغان خواتین کی قومی ٹیمیں فٹ بال، سائیکلنگ اور والی بال جیسے کھیلوں میں سرگرم تھیں۔ لیکن طالبان کی واپسی کے بعد ان ٹیموں کو ختم کر دیا گیا اور ان کے زیادہ تر ارکان کو اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فٹنس