آئی سی سی کا افغان خواتین کرکٹرز کے لیے فنڈنگ کا اعلان

آئی سی سی کے چیئرمین جے شاہ نے کہا کہ ان کا ادارہ ’شمولیت کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ ہر کرکٹر کو ان کے حالات سے قطع نظر کامیابی کا موقع ملے۔‘

ہرات کے ایک سکول کے میدان میں 2 ستمبر 2013 کو افغان لڑکیاں کرکٹ کھیل رہی ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

افغانستان کی خواتین کرکٹرز کو بین الاقوامی مقابلوں میں دوبارہ شمولیت کے لیے بالآخر اعلیٰ سطحی معاونت ملے گی کیونکہ کھیل کی عالمی گورننگ باڈی نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو بے گھر ہونے والی ان کھلاڑیوں کے لیے براہ راست فنڈنگ، اعلیٰ معیار کی کوچنگ اور سہولیات مربوط کرے گی۔

2021 میں طالبان کے دوبارہ کنٹرول سنبھالنے اور خواتین کے کھیلوں پر پابندی عائد کرنے کے بعد افغانستان کی قومی خواتین ٹیم کی درجنوں کھلاڑی آسٹریلیا منتقل ہو گئیں۔ اس کے بعد سے کھلاڑی باضابطہ حمایت مانگ رہی ہیں۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اتوار کی رات ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس نے آسٹریلیا، انڈیا اور انگلینڈ میں کھیلوں کی قومی ایسوسی ایشنز کے ساتھ  بے گھر ہونے والی افغان خواتین کھلاڑیوں کی مدد کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے۔

آئی سی سی کے چیئرمین جے شاہ نے کہا کہ ان کا ادارہ ’شمولیت کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ ہر کرکٹر کو ان کے حالات سے قطع نظر کامیابی کا موقع ملے۔‘

انہوں نے کہا: ’آئی سی سی کا ماننا ہے کہ اس (سپورٹ فنڈ) سے نہ صرف افغان خواتین کرکٹرز کے کھیلوں کے کریئر کو محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی بلکہ سرحدوں اور مشکلات کو عبور کرنے والی ایک متحد قوت کے طور پر کھیل کے کردار کو بھی تقویت ملے گی۔‘

افغانستان ویمنز الیون نے جنوری میں میلبورن کے جنکشن اوول میں کرکٹ ود آؤٹ بارڈرز الیون کے خلاف ایک نمائشی میچ کھیلا تھا جس میں آسٹریلوی حکومت کے تعاون سے 21 خواتین کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا تھا جن کا پہلے افغانستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ کنٹریکٹ تھا۔

افغانستان چھوڑنے کے بعد سے بہت سی خواتین کرکٹرز آسٹریلیا کے دارالحکومت اور میلبورن میں مقیم ہیں اور مقامی مقابلوں میں کلب ٹیموں کے لیے کھیل رہی ہیں۔

فیروزہ امیری نے جنوری میں اس نمائشی میچ سے قبل کہا تھا کہ ان کی ٹیم ’افغانستان میں لاکھوں خواتین کی نمائندگی کرتی ہے جنہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امیری اپنے خاندان کے ساتھ اپنے آبائی ملک سے فرار ہو گئیں اور آسٹریلیا لے جانے سے پہلے پاکستان آئیں۔

طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کرکٹ بورڈ خواتین کی قومی ٹیم کو میدان میں نہیں اتار سکتا کیونکہ ملک کے قوانین خواتین کو کھیل کھیلنے، تعلیم حاصل کرنے اور طبی تعلیم حاصل کرنے سے منع کرتے ہیں۔ ان اقدامات پر عالمی گروپوں بشمول بین الاقوامی فوجداری عدالت نے تنقید کی ہے۔

افغانستان انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا مکمل رکن ہے اور اس کی شرط کے تحت اس کے پاس خواتین کی قومی ٹیم ہونا ضروری ہے۔

انگلینڈ اور آسٹریلیا نے احتجاجا افغانستان کے خلاف براہ راست سیریز میں شرکت سے انکار کر دیا ہے لیکن آئی سی سی ایونٹس میں افغان مردوں کے خلاف کھیلتے ہیں۔

گذشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے والی افغانستان کی مرد ٹیم کی تاریخی کامیابی کی وجہ سے خواتین ٹیم کے ارکان نے فنڈنگ کے لیے ایک بار پھر آئی سی سی سے رجوع کیا۔

اس گروپ نے سب سے پہلے 2023 میں آئی سی سی سے رابطہ کیا تھا اور آسٹریلیا میں مقیم پناہ گزین ٹیم کو بین الاقوامی کرکٹ میں دوبارہ شامل کرنے کے لیے مدد مانگی تھی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین