تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ جس کسی نے بھی یہ تاریخی مقولہ ایجاد کیا ہو گا یقیناً پاکستان کے حالات کو مدِنظر رکھ کر ہی کیا ہو گا۔ ایک بار پھر تاریخ کا پہیہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے سرک رہا ہے۔
سنہ ہے 1977 کا، وزیر اعظم ہیں پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو۔ مخالف ہے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی این اے۔ اتحاد میں شامل ہیں نو جماعتیں، نو ستارے، جن کی کوئی کل بھی آپس میں نہیں ملتی۔ عوامی زبان میں بھان متی کا کنبہ ہے یا چوں چوں کا مربہ۔ مختلف انواع کی جماعتیں ہیں جن کے خیالات ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں نہ روایات۔ کوئی سیکولر ہے، تو سوشلسٹ، کوئی کمیونسٹ ہے، کوئی کنزرویٹو اور کوئی رجعت پسند سخت گیر اسلامی۔
ایک طرف میاں لطیف محمود کی سربراہی میں جماعت اسلامی ہے تو مولانا مفتی محمود کی جمیعت علما اسلام۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی جے یو پی بھی یہاں ہے تو اصغر خان کی تحریک استقلال بھی۔ پی ایم ایل، این ڈی پی (موجودہ اے این پی) اور خاکسار تحریک بھی اسی بندھن میں بندھے ہیں۔
آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس بھی اتحاد میں شامل ہے اور نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی بھی اپنی بہار دکھا رہی ہے۔ الغرض کوئی ایک شے بھی روایتی طور پر مشترک نہ تھی سوائے ایک قدر کے: اینٹی بھٹو۔ ہر حال میں ذوالفقار بھٹو سے چھٹکارا پانا ہے۔ وزیر اعظم بھٹو کے خلاف اپوزیشن کی موٹی موٹی چارج شیٹ بھی دیکھئے ۔۔۔۔۔ معاشی بدحالی، ٹیکس کا بدترین نظام، صحت اور تعلیم کی دگرگوں صورت حال، اشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں، مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانا، شخصی آزادیوں پر قدغن، وزیر اعظم کی پارٹی پر کرپشن کا الزام، سقوط ڈھاکہ کا موردِ الزام، بھارت کے ساتھ کمپرومائز، کشمیر کا سودا اور تو اور سب سے بڑھ کر اسلام اور اسلامی قوانین کا تحفظ و نفاذ! کیا کہتے ہیں؟؟؟ سب کچھ سنا سنا سا اور جانا پہنچانا سا معلوم نہیں ہوتا۔۔۔؟
لیکن ابھی یہیں نہیں رکیئے۔ مزید آگے بھی سنئیے۔ تاریخ میں مزید پیچھے بھی دیکھیے۔ وزیر اعظم پر معاشی بدحالی کی چارج شیٹ لگاتے اپوزیشن نے اپنا بھی آٹھ نکاتی فارمولا یا پالیسی عوام کے سامنے رکھ دی۔ روزمرہ کی استعمال کی اشیاء کی قیمتیں پرانے نرخوں پر بحال کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ معیشت کی بحالی اور ٹیکسوں کے بہتر نظام کے لیے ’چینی ماڈل‘ پیش کر دیا۔ سقوط ڈھاکہ اور کشمیر پر سودے کا براہ راست الزام وزیر اعظم کے سر ڈال دیا۔ تحریک میں آہستہ آہستہ شدت آتی گئی۔ وزیر اعظم نے پہلے بزورِ قوت تحریک کو دبانے کی کوشش کی لیکن ایک طرف جہاں گرفتاریوں نے پی این اے تحریک میں مزید جان ڈالی وہیں فوج کی طرف سے مظاہرین پر سختی کرنے کے احکامات کو تسلیم نہ کیے جانے نے بھی وزیر اعظم کی پوزیشن کو کمزور کیا۔ مذہب کے نام پر اور معیشت کے استحکام کی خاطر نکالی گئی تحریک نے ملک بھر کی مساجد کو اپنا گڑھ بنا لیا۔ مساجد میں عوامی احتجاج ہونے لگے۔ خطیب وزیر اعظم کے خلاف جذباتی جوشیلی تقاریر کے ذریعے عوام کے مذہبی جذبات ابھارنے لگے۔ حکمران جماعت نے مذہب کارڈ کے استعمال کی مخالفت کی تو اپوزیشن نے سڑکوں پر پوسٹرز اور اخبارات میں اشتہارات چھپوانے شروع کر دیے کہ اسلام کے تحفظ کی پہلی جاء ہی مسجد ہے اور کہ پیغمبر اسلام کے دور میں بھی کیسے مساجد مذہب اور سیاست کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ اتحاد العلما پاکستان نے تو علامہ اقبال کے شعر پر مبنی مہم و اشتہارات کا آغاز کر دیا کہ ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ ۔۔۔۔ مذہبی کارڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے کئی مذہبی اقدامات کرنے کی کوشش بھی کی۔ ملکی اور غیر ملکی بیانات میں اسلام کا نیا بیانیہ دینے کی کوشش بھی کی۔ خود کو معتدل اسلام کا سفیر بنا کر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ بات لیکن بن نہ سکی۔
وزیر اعظم کی حکمران جماعت نے پی این اے تحریک کو ناکام بنانے اور اس سے جان چھڑانے کے کئی حربے استعمال کئے، کئی پینترے بدلے۔ یہاں تک کہا گیا کہ ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے غیر ملکی آقاؤں کے اشارے اور فنڈنگ پر یہ حکومت گراؤ تحریک چلائی جا رہی ہے۔ ایک موقع پر اس تحریک سے جان چھڑانے کی خاطر مذاکرات میں سعودی عرب کے کردار کو بھی زیرِ استعمال لایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں تعینات سعودی سفیر کا مذاکرات میں کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن وزیر اعظم کے تحریک کے ساتھ مذاکرات، باوجود اس کے کہ وہ حتمی نتیجے پر پہنچنے والے تھے، ناکام ہو گئے۔ طاقت کے ناکام استعمال اور مذاکرات کی ناکامی کا بھی نتیجہ یہ نکلا کہ خلا پاتے ہی فوج نے براہِ راست اقتدار سبنھال لیا۔ حالانکہ اس بحرانی دور میں بھی عمومی تاثر یہ تھا کہ سول حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور کچھ ہی عرصہ پہلے وزیر اعظم بھٹو نے بلوچستان میں ملڑی آپریشن شروع کیا تھا۔ لیکن جنگ، محبت اور سیاست میں کہتے ہیں کہ سب جائز ہے، سب کچھ ’فیئر پلے‘ ہے۔
اب آئیے آج کے نئے پاکستان کی طرف۔ وہی وزیر اعظم ہے، وہی مختلف النوع اپوزیشن کا اجتماع ہے، وہی چارج شیٹ ہے، وہی الزامات ہیں، وہی کہانی ہے، وہی دھاندلی کا شور و غوغا ہے جو 1977 میں تھا۔
اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت میں وہی کردار آپ کو نظر آئیں گے جو 1977 میں تھے، وہی کردار یا ان کے جانشین یا ان کی باقیات کسی نہ کسی صورت میں۔ کل تک اس تحریک کی قیادت مولانا مفتی محمود صاحب کر رہے تھے، آج ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان وزیر اعظم کے مذہبی جواز، دگرگوں معاشی صورت حال اور کشمیر کا سودا جیسے الزامات کی بنا پر استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 42 سال پہلے انہی الزامات کی بنا پر اپنی حکومت، اپنا وزیر اعظم، اپنا قائد کھونے والی پیپلز پارٹی اپنا وزن مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے کے پلڑے میں ڈالے ہوئے ہے۔ کہاں کی سیاست کہاں کے اصول ۔۔۔۔۔ سچ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں نہ تو دل ہوتا ہے اور نہ ہی سیاست میں کوئی ہمیشہ کا دوست دشمن ۔۔۔۔۔ کل اینٹی بھٹو جذبات تھے، آج کا ون پوائنٹ ایجنڈا اینٹی خان ہے۔ ہر صورت عمران خان کو حکومت سے نکالنا ہے چاہے اس کی قیمت کچھ ہی کیوں نہ ہو؟ بار بار مائنس ون پر اصرار ہے۔ لیکن کیا یہ مائنس ون صرف عمران خان تک ہی محدود ہے۔ کیا قربانی صرف عمران خان کی مطلوب ہے؟
مائنس ون کے فارمولے پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے دہائیوں تک استعمال کئے ہیں اور ان کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ مائنس ون فارمولے کا چشمہ کہاں سے پھوٹتا ہے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بڑے بھولے ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں، کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ مولانا از خود نوٹس پر آزادی تحریک چلانے نکلے ہیں۔ نون لیگ نومبر کا اختتام اور پیپلز پارٹی دسمبر تک جب اصرار کرتی ہے تو کون کون سے اسرار ہیں جو آشکار نہیں ہو جاتے۔ بظاہر اس وقت سب کچھ نارمل اور ایک پیج پر نظر آ رہا ہے لیکن حالات ایسے ہی نارمل تھے اور وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو بھی اس قدر ہی پر اعتماد تھے کہ سمجھ نہ آئی تھی تحریک اچانک کہاں سے چلی اور حالات نے خونیں موڑ کہاں سے لیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے وزیر داخلہ بریگیڈیر اعجاز شاہ بار بار تڑیاں لگاتے ہیں کہ عوام شرپسندوں کی کال پر کان نہ دھریں، چھترول ہو گی، کوئی مائی کا لعل حکومت نہیں گرا سکتا ۔۔۔۔۔ بہتر ہے کہ وزیر اعظم اپنے وزراء کو ایسی بیان بازی سے محفوظ رکھیں تاآنکہ وہ نادان دوست ثابت نہ ہوں۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو بھی طاقت کے استعمال سے مظاہرین کو روکنے کے بیانات جاری کرتے وقت پاکستان کی تاریخ کو سامنے رکھنا چاہیئے۔
وزیر اعظم کہتے ہیں صبر کریں تبدیلی آہستہ آہستہ آئے گی لیکن لگتا ہے کہ صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا اور سپل ویز آہستہ آہستہ کھول دیے گئے ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں حکومت کی حد سے زیادہ خود اعتمادی ہی نہ لے ڈوبے لیکن اپوزیشن جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیئے کہ عمران خان سے ان کے گلے شکوے، ناراضگی، نفرت ایک طرف لیکن پھر اکتوبر ہو نومبر ہو یا دسمبر کیا وہ ماضی کے ذوالفقار بھٹو کی طرح عمران خان کو بھی سیاسی شہید تو نہیں بنانے جا رہے ۔۔۔۔۔
آخر میں عبدالحمید عدم کے کچھ اشعار موجودہ حالات کی ذومعنویت پر۔۔۔۔۔
ایک نامقبول قربانی ہوں میں
سرپھری الفت میں لاثانی ہوں میں
کان دھرتے ہی نہیں وہ بات پر
کب سے مصروفِ ثناخوانی ہوں میں
مجھ کو پچھتانا نہیں آتا عدم
ایک دولت مند نادانی ہوں میں