سپریم کورٹ نے حسین حقانی کی جانب سے اس وقت کے امریکی جانئٹ چیف آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن کو لکھے گئے میمو پر بنائے گئے مقدمے کو نمٹا دیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمے میں کچھ حساس نوعیت کی معلومات ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس مقدمے کے حقائق دیکھ کر کافی حیرت ہوئی، پاکستان اتنا کمزور ملک نہیں کہ ایک میمو لکھنے سے لڑکھڑا جائے، اگر کوئی ملک واپس نہیں آتا تو وہ الگ معاملہ ہے، گرفتاری اور مقدمہ چلانا ریاست کا کام ہے۔
میموگیٹ ہے کیا؟
2011 میں برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی اہلکار نے مائیک ملن کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قابو میں کیا جائے۔
یہ خبر امریکہ میں مقیم پاکستانی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے دی تھی اور ان کے مطابق یہ میمو یا یادداشت مئی 2011 میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک مکان میں موجودگی اور پھر امریکی حملے میں ہلاکت کے فوراً بعد بھیجا گیا تھا۔
اس وقت پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور آصف علی زرداری ملک کے صدر جب کہ یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم تھے۔ اس کے بعد اخباری خبروں میں ذکر آیا یہ میمو دراصل امریکہ میں اس وقت پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے صدر آصف علی زرداری کی ایما پر بھیجا تھا۔
پاکستان میں ردِعمل
اس خبر کا پاکستان میں شدید ردِ عمل ہوا اور میڈیا پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ حزبِ اختلاف نے حکومت پر غداری کا الزام لگا دیا اور کہا کہ اس میمو کے ذریعے عسکری اداروں کی توہین کی گئی ہے۔
اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے کئی بار آصف علی زرداری سے ایک سے زیادہ بار ملاقات کر کے اس معاملے پر بات کی۔
اس وقت کے حزبِ اختلاف کے سربراہ نواز شریف اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے گئے۔ مقدمے کے دوران سپریم کورٹ میں منصور اعجاز کا بلیک بیری فون بھی پیش کیا۔ اس فون کے فورینزک تجزیے سے معلوم ہوا کہ ان کا حسین حقانی سے اس معاملے پر تبادلۂ خیال ہوا تھا۔
حسین حقانی کا کردار
اس کے بعد حسین حقانی کو ملک واپس لانے اور ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کے مطالبات زور پکڑنے لگے۔ اس دوران حقانی کو سفیر کے عہدے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
پہلے تو حقانی نے منصور اعجاز سے کسی بھی قسم کے رابطے کا انکار کیا لیکن کچھ ماہ بعد انھوں نے تسلیم کر لیا کہ واقعی ان کی منصور سے بات ہوئی تھی۔ تاہم وہ اس قسم کا کوئی میمو بھیجنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔
میمو تو ٹھیک ہے لیکن گیٹ کیا ہے؟
امریکہ میں1972 میں اس وقت کے صدر رچرڈ نکسن کے بارے میں ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے واشنگٹن کے واٹر گیٹ ہوٹل میں اپنے سیاسی مخالفین کے فون ٹیپ کیے تھے۔ اس انکشاف کے بعد صدر نکسن کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
اس تنازعےکو واٹر گیٹ ہوٹل کی مناسبت سے واٹر گیٹ سکینڈل کہا جانے لگا۔ اس کے بعد سے دنیا کے کئی یاسی تنازعات کے ساتھ گیٹ لگانے کی روایت قائم ہو گئی۔ ’میمو گیٹ‘ بھی اسی روایت کا تسلسل ہے۔