ئی تحقیق سے یہ امکان سامنے آیا ہے کہ مانع حمل گولیوں کا استعمال خواتین کی دوسروں کے چہرے کے تاثرات سے ان کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت متاثر کر سکتا ہے۔
ان گولیوں کے مضر اثرات پر ایک عرصے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ان میں ممکنہ طور پر مزاج کا اتار چڑھاؤ، متلی اور سر اور چھاتی کا درد شامل ہو سکتے ہیں۔
مانع حمل گولیوں کو استعمال کرنے والی خواتین کی ذہنی صحت پر ان ادویات کے ممکنہ اثرات پر توجہ حال ہی میں بڑھی ہے۔ بی بی سی نے بھی گذشتہ دنوں ایک معلوماتی دستاویزی فلم میں اس موضوع کا جائزہ لیا ہے۔
حالیہ برسوں میں ان گولیوں کو ذہنی صحت کے مسائل سےجوڑنے پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ تاہم اس بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ منہ کے راستے لی جانے والے مانع حمل ادویات کا استعمال خواتین کی دوسروں کے چہرے کے پیچیدہ تاثرات کو جانچنے کی صلاحیت پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے۔
جرمنی کی گریفسوالڈ یونیورسٹی کے کچھ سائنس دانوں نے 18 اور 38 سال کے درمیان عمر کی 95 صحت مند خواتین میں اس موضوع پر نظر ڈالی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج فرنٹیرز آف نیورو سائنس نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔
تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ اس جائزے میں شریک ہونے والی خواتین کی کم تعداد کے باوجود اس کے نتائج مستقبل میں مانع حمل گولیوں کے استعمال سے متعلق رہنمائی میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس جائزے میں شریک خواتین میں سے 42 کا کہنا تھا کہ وہ مانع حمل گولیاں استعمال کرتی ہیں جب کہ 53 کے مطابق وہ ایسا نہیں کرتیں۔اس گروہ کو 37 بلیک اینڈ وائٹ تصاویر دکھائی گئیں جن میں لوگوں کے چہرے کا آنکھوں کے اردگرد کا حصہ دکھایا گیا تھا۔
ہر تصویر کے ساتھ چار عنوان دیے گئے تھے جو فخر یا حقارت جیسے مرکب جذباتی تاثرات کو بیان کرتے تھے۔ ان میں سے تین دھیان ہٹانے کے لیے تھے جب کہ ایک مطلوبہ عنوان تھا۔
ان خواتین سے کہا گیا تھا کہ انہیں تصویر کے موزوں ترین عنوان کو ظاہر کرنے والا بٹن جلد از جلد دبانا ہے۔
اس جائزے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ مانع حمل گولیاں استعمال کرنے والی خواتین میں چہرے کے تاثرات کو درست طور پر سمجھنے کا امکان دوسری شرکا خواتین کے مقابلے میں کم تھا۔
اس تحقیق کے سینیئر مصنف ڈاکٹر الیگزینڈر لیشک کا کہنا تھا: ’منہ سے لی جانے والی دافع حمل ادویات اگر جذباتی کیفیات کو پہچاننے میں واضح کمی کا باعث بنتیں تو ہمیں غالباً اپنی شریکِ حیات سے روزمرہ میل جول ہی میں اس کا پتہ چل جاتا۔ اس لیے ہم نے فرض کر لیا کہ یہ کمی بہت معمولی سی ہو گی۔ چنانچہ ہمیں خواتین میں جذبات کی شناخت کا کوئی ایسا تجربہ کرنا تھا جو اس قسم کی کمی کا ادراک کر سکے۔ اسی لیے ہم نے چہرے کے آنکھ والے حصے کے مرکب تاثرات سے جذبے کی شناخت کا ہنرآزما کام تجویز کیا۔ آسان تاثرات کو پہچاننے میں دونوں گروہ ایک جیسے تھے لیکن منہ سے مانع حمل ادویات لینے والی خواتین میں دشوار تاثرات کو درست طور پر شناخت کرنے کا امکان کم پایا گیا۔‘
ڈاکٹر لیشک اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ مانع حمل گولی سے خواتین میں ایسٹروجن اور پروجیسٹیرون جیسے ہارمونز کی سطح پر اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ اس کے استعمال سے ان کی جذبات کو شناخت کرنے کی صلاحیت کا متاثر ہونا سمجھ میں آتا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس تحقیق کا نتیجہ واضح ہے، تاہم اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا جذبات کی شناخت کے متاثر ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ متاثرہ خاتون کس قسم کی گولی لے رہی تھیں، کتنے عرصے سے لے رہی تھیں اور دن کے کس حصے میں لیتی تھیں۔
وہ کہتے ہیں: ’اگر یہ بات درست نکلے تو ہمیں چاہیے کہ خواتین کو مانع حمل ادویات کے استعمال کے ممکنہ نتائج کے بارے میں زیادہ تفصیل سے آگاہ کریں۔‘