حماس وفد کا فائر بندی مذاکرات کے لیے دورہ قاہرہ

حماس کا اعلیٰ سطحی وفد ہفتے کو قاہرہ میں مصری ثالثوں سے فائر بندی مذاکرات کے لیے روانہ ہو رہا ہے جس کی قیادت حماس کے چیف مذاکرات کار خلیل الحیہ کریں گے۔

غزہ میں 11 اپریل 2025 کو اسرائیلی انخلا کے احکامات کے بعد فلسطینی اپنا سامان لے کر جا رہے ہیں (بشارت طالب / اے ایف پی)

قاہرہ میں مصری ثالثوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے حماس کے سینیئر رہنما ہفتے کو روانہ ہو رہے ہیں اور انہیں غزہ میں فائر بندی معاہدے کے حوالے سے ’حقیقی پیش رفت‘ کی توقع ہے۔

حماس اہلکار نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’ہم امید کرتے ہیں کہ اس ملاقات میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور قابض افواج کے مکمل انخلا پر معاہدے کی طرف حقیقی پیش رفت ہو گی۔‘

یہ اہلکار فائر بندی مذاکرات سے واقف ہیں لیکن انہیں عوامی طور پر بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کی۔

یہ طے شدہ مذاکرات ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا کہ غزہ میں قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب پہنچا جا چکا ہے۔

ایک حماس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ فلسطینی تنظیم توقع کر رہی ہے کہ مصری ثالثوں کے ساتھ ملاقات میں نمایاں پیش رفت ہو گی۔

اہلکار کے مطابق حماس کے وفد کی قیادت تنظیم کے چیف مذاکرات کار خلیل الحیّہ کریں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ اسرائیلی میڈیا یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اسرائیل اور مصر نے ممکنہ فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی پر مشتمل ابتدائی مسودات کا تبادلہ کیا ہے، لیکن حماس کو تاحال کوئی نئی باضابطہ تجویز موصول نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا: ’تاہم، ثالثوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور بات چیت جاری ہے۔‘

دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق مصر کی تجویز میں حماس کے پاس موجود آٹھ زندہ اسرائیلی قیدیوں اور آٹھ لاشوں کی رہائی شامل ہے، جس کے بدلے میں 40 سے 70 دن کی فائر بندی اور بڑی تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شرط رکھی گئی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس ہفتے کابینہ کے اجلاس میں کہا: ’ہم ( قیدیوں کی) واپسی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔‘

ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے بھی ایک اسرائیلی میڈیا رپورٹ میں کہا کہ: ’ایک بہت سنجیدہ معاہدہ بننے جا رہا ہے، یہ صرف دنوں کی بات ہے۔‘

اسرائیل نے 18 مارچ کو غزہ پر دوبارہ فضائی حملے شروع کیے، جس سے حماس کے ساتھ دو ماہ سے جاری فائر بندی ختم ہو گئی۔

تب سے اب تک، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 1,500 سے زائد افراد جان سے جا چکےہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی رپورٹ کے مطابق، درجنوں حملوں میں صرف ’عورتیں اور بچے‘ مارے گئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ انتباہ بھی دیا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے انخلا کے احکامات میں توسیع لوگوں کی ’جبری منتقلی‘ کا سبب بن رہی ہے، جس سے’غزہ میں فلسطینی قوم کے وجود کے مستقبل پر حقیقی خطرات‘ پیدا ہو گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہفتے کو بھی اسرائیل نے اپنی جارحیت جاری رکھی۔

غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے اطلاع دی کہ ہفتے کی صبح غزہ سٹی میں ایک مکان پر اسرائیلی فضائی حملہ کیا گیا۔

اے ایف پی کی حاصل کردہ فوٹیج میں دکھایا گیا کہ ایک مقامی ہسپتال میں چار مردوں کی لاشیں سفید کفن میں لپٹی ہوئی ہیں جبکہ متعدد افراد ان کی نمازِ جنازہ کی تیاری کر رہے ہیں۔

17  مارچ کو ختم ہونے والی فائر بندی کے نتیجے میں حماس کے پاس موجود 33   اسرائیلی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی — جن میں سے آٹھ ہلاک ہو چکے تھے — جبکہ اسرائیلی جیلوں سے تقریباً 1,800  فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔

یہ مسلح تنازع سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوا، جس میں 1,218 افراد جان سے گئے۔

اس حملے میں حماس نے 251  افراد کو قیدی بنایا، جن میں سے 58  تاحال غزہ میں قید ہیں، جن میں 34  کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 18  مارچ کے بعد سے کم از کم 1,542 فلسطینی جان سے گئے، جبکہ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک کل اموات کی تعداد 50,912 ہو چکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا