پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور 26 نومبر 2024 کو کنٹینر پر سوار احتجاجی قافلے کی قیادت کر رہے ہیں (پی ٹی آئی بلو سکائی)
ایک زمانہ تھا، احتجاج پاکستان تحریک انصاف کی قوت ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک کال دیا کرتی تھی، تھرتھلی مچ جاتی تھی اور نظام زندگی معطل ہو کر رہ جاتا تھا۔
اس قوت کے احساس نے تحریک انصاف کو کچھ زیادہ ہی سرشار کر دیا۔ یہ وہ ٹیم بن گئی جو بولنگ کے دوران ہر گیند ہی باؤنسر کرانے لگی اور بیٹنگ میں ہر بال پر چھکا مارنے پر تل گئی۔
اس کے خلاف عدم اعتماد آ گئی تو ملک بھر میں احتجاج، یہ ہو گیا تو احتجاج، وہ ہو گیا احتجاج۔ عدالتی فیصلہ خلاف آ گیا احتجاج۔ وارنٹ جاری ہو گیا تو احتجاج۔ کپتان کی گرفتاری کا فیصلہ ہو گیا تو احتجاج۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا تو احتجاج۔ کوئی اہم غیر ملکی مہمان آنے لگا تو احتجاج۔ کوئی اہم کانفرنس ہونے لگی تو احتجاج۔
احتجاج کی اس طاقت کا مسلسل، غیر ضروری اور غیر سنجیدہ استعمال کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ احتجاجی عمل اب چھینک کی طرح روز مرہ بن کر رہ گیا ہے۔
اب احتجاج کا اعلان ہوتا ہے تو نہ کوئی تھرتھلی مچتی ہے، نہ کوئی اس کا نوٹس لیتا ہے اور نہ ہی معمولات زندگی پر کوئی فرق پڑتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نظام فطرت نے اس کا علاج بالمثل ڈھونڈ لیا ہو۔ یا یوں سمجھ لیجیے کہ کثرتِ احتجاج نے اسے نامعتبر کر دیا۔
ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں: چین کے صدر تشریف لا رہے تھے، ڈی چوک پر دھرنا طول پکڑ گیا۔ دورہ ملتوی ہو گیا۔
اسلام آباد میں شنگھائی کانفرس ہونے لگی تو تحریک انصاف نے ایک بار پھر ڈی چوک میں احتجاج کا اعلان فرما دیا۔ نظام زندگی معطل ہو گیا۔ شہر دو دن محصور رہا۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور رویے نے بھی جنم لیا۔ وہ یہ کہ ملک میں جب کچھ اہم ہونے لگتا، پی ٹی آئی از خود حالت احتجاج میں چلی جاتی اور زبان حال سے آواز لگاتی: جائیے جائیے، ہم آپ سے ناراض ہیں، ہم سے کوئی تعاون مت مانگیو، بتائے دیتے ہیں۔
پھر دائروں کا ایک سفر شروع ہو جاتا۔ حکومتی وفود اس کو راضی کرنے کی کوششں میں مصروف ہو جاتے لیکن یہ ایسی شرائط عائد کر دیتی کہ نو من تیل کی دستیابی مشکل ہو جاتی اور بات بالآخر وہیں جا پہنچتی: بائیکاٹ۔
ترک صدر تشریف لائے تو تحریک انصاف نے ان کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا بھی بائیکاٹ فرما دیا۔
فلسطین پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تو ایک بار پھر مطالبات کا دیوان سامنے رکھ دیا گیا اور پھر حسب روایت اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا تو پارلیمانی پارٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس ہوا۔ تحریک انصاف نے ایک بار پھر اس کا بائیکاٹ کر دیا اور اس کا کوئی رکن پارلیمان اس میں شریک نہ ہوا۔
اس کا منطقی نتیجہ حکومتی حلقوں میں اس سوچ کی صورت میں سامنے آیا کہ اہم قومی معاملات پر بلیک میلنگ کی جارہی ہے۔ اس لیے اہم معاملات پر بات آگے بڑھائی جائے اور اس دوران تحریک انصاف یا کوئی اور قوت اگر احتجاج کرتی ہے تو اسے یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔
چنانچہ منرلز فورم کا انعقاد اسی فارمولے کے تحت ہوا۔ کسی نے تحریک انصاف سے درخواست نہیں کی کہ گرامی قدر ضرور تشریف لایے، ہم چشم براہ ہوں گے۔ تمام وزرائے اعلی شریک ہوئے سوائے علی امین گنڈا پور کے۔ مگر ان کی عدم شرکت سے فورم کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس دفعہ کوئی وفد ان کے حضور پیش نہیں ہوا کہ صاحب بندہ پروری ہو گی اگر آپ رونق بخشیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی ایم ایف سے معاملہ ہونے لگے تو یہ آئی ایم ایف کو خط لکھ دیتے ہیں کہ پاکستان سے معاملہ نہ کریں۔ زرمبادلہ کی ضرورت ہو تو یہ اوورسیز سے کہتے ہیں پاکستان رقوم نہ بھیجیں۔ غیر ملکی وفود آنے لگیں تو انہیں کہا جاتا ہے پاکستان نہ جائیں۔
اس بار بھی بیرون ملک ایک مہم ضرور چلائی گئی اور غیر ملکی وفود سے کہا جاتا رہا کہ وہ پاکستان نہ جائیں اور اس کانفرنس کا بائیکاٹ کریں لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
داخلی احتجاج کی طرح بیرون ملک کی احتجاج کی طرح یہ مہم جوئی بھی اپنا وزن کھوتی جا رہی ہے کیونکہ یہ بھی غیر ضروری جارحانہ انداز سے چلائی گئی۔
اس کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ترسیلات زر کے روکنے کے مطالبے پر ترسیلات زر اور بھی بڑھ جاتی ہیں اور غیر ملکی وفود منع کرنے کے باوجود بھی پاکستان آ جاتے ہیں۔ گویا یہ اصول صرف اندرون ملک نہیں، بیرون ملک بھی طے پا چکا کہ ہر طرح کے احتجاج سے قطع نظر معاملات آگے بڑھنے چاہیں۔
حسن اہتمام یا حسن اتفاق دیکھیے کہ تحریک انصاف کے عہد اقتدار کے زمانوں کے حلیف اختر مینگل صاحب بھی عین ان ہی دنوں میں احتجاج فرما رہے ہیں جب منرلز فورم کا اہم اجلاس ہو رہا ہے مگر یہ احتجاج اس اجلاس پر اثر انداز نہیں ہو سکا۔ اجلاس ہوا اور سرمایہ کاری بھی ہو گی۔
یعنی مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے کی سی کیفیت سامنے آ رہی ہے کہ قومی زندگی کے فیصلے کسی کے احتجاج ، کسی کی برہمی کے آگے رہن نہیں رکھے جا سکتے۔
اس بدلتے منظر نامے میں تحریک انصاف کے لیے غوروفکر کا بہت سا سامان موجود ہے۔ احتجاج پارلیمانی سیاست کا ایک جزو ضرور ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ احتجاج تب ہی فائدہ مند ہو سکتا ہے جب پارلیمانی بصیرت اس کے ہمراہ ہو۔ لیکن اگر محض احتجاج ہی کو حکمت عملی بنا لیا جائے تو پھر آپ (ارریلیونٹ) غیر متعلق ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ضرورت سے زیادہ استعمال تو میٹھے کا بھی ہو تو نقصان دہ ہوتا ہے، احتجاج تو پھر احتجاج ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پارلیمانی سیاست میں احتجاج ہوتا رہتا ہے مگر پارلیمانی سیاست محض احتجاج کا نام نہیں ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔