غزہ کے لیے انفرادی احتجاج کرنے والے چند بہادر

جب مسلم امہ خاموش ہے اور معاشی مفادات کے باعث کئی ممالک اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے سے گریزاں ہیں، ایسے میں چند باہمت افراد کے انفرادی احتجاج بڑے اداروں پر بھاری ثابت ہو رہے ہیں۔ گہرے سناٹے میں ایک للکار بھی کافی ہوتی ہے۔

چھ اپریل، 2025 کو رباط میں فلسطینیوں کی حمایت اور مراکش کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی معمول پر لانے کے خلاف قومی مارچ کے دوران مظاہرے میں مائیکروسافٹ انجینیئر ابتهال ابو السعد کی تصویر والا پلے کارڈ نظر آ رہا ہے (اے ایف پی)

اپنے گھر کے سکون میں بیٹھ کر فلسطین کی صورت حال پہ تازہ خبریں پڑھنا اور پڑھ کر پریشان ہو جانا، دوستوں کی محفل میں چار ہم خیال مل جائیں تو غزہ کے مسلمانوں پہ کف افسوس ملنا، سوشل میڈیا پہ دو چار ہفتہ وار پوسٹ داغ دینا، یہ تو پچھلے کئی ماہ سے مجھ سمیت اکثر احباب کررہے ہیں۔

میں غزہ کے حوالے سے ہونے والے چند ایک احتجاجی جلوسوں میں بھی ہو آئی، نارویجن پارلیمنٹ کے سامنے نعرے لگائے، فلسطین کا پرچم لہرایا، میں نے مختلف رنگوں کے فلسطینی رومال کوفیہ بھی خرید رکھے ہیں۔ 

ہمارے چند دوستوں نے تو اپنے گھروں کی بالکونی میں فلسطین کے جھنڈے بھی لگائے ہوئے ہیں۔

تربوز کی قاش جس میں  فلسطینی پرچم کے سارے رنگ موجود ہیں، یہ بھی غزہ والوں کے حق میں ایک پیغام ہے۔ 

سو یہاں مغربی ممالک میں تربوز  کی قاش سے سجے سٹیکرز، زیورات، سکارف۔۔۔۔ فلسطین کی حمایت میں جو سوچیں وہ مل رہا ہے۔ 

جو اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں لیکن غزہ پہ اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے سیاسی رائے رکھتے ہیں وہ ایسے نشانات سجا کر دنیا کو  یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ غزہ کو بھولنے والے نہیں۔

ایک ایسی سیاسی رائے رکھنا جو طاقت وروں کو چبھتی ہو کیا کم خطرناک ہے کجا کہ ایسی رائے کا برملا اظہار بھی سرعام کر دیا جائے۔ 

یہی کچھ ہم میں بعض ہمت والے کر رہے ہیں۔ یہ ہمت والے لوگ  اپنی یونیورسٹی کی ڈگریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان ہمت والوں نے اپنی پکی نوکریاں گنوا دی ہیں۔

غزہ پہ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والے یہ بہادر لوگ ہر ملک، رنگ و نسل سے ہیں۔ یہ نارویجن، شامی، ایرانی، سعودی، انڈین، امریکن، یہاں تک کہ خود اسرائیلی بھی ہیں۔ 

یہاں ناروے میں اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں چند ایک تو وہ ہیں جو اسرائیلی فوج کے رکن تھے اور ظالم کا ساتھ چھوڑ آئے ۔

ان بہادر لوگوں کو اب صرف نوکری یا ڈگری سے ہی محروم نہیں کیا جا رہا بلکہ  بعض کیسز میں پرتشدد رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 

ویسے کہنے کی بات ہے ورنہ اپنے ملک میں تو نابینا افراد  بھی حقوق کے لیے احتجاج کریں تو ڈنڈے مار کر ان کے سر کھول دیے جاتے ہیں، بلوچ مظاہرین کے ساتھ جو ہوا کچھ ایسا ہی سلسلہ اساتذہ کے احتجاج میں بھی کیا جاتا ہے۔

اپنے دیس میں احتجاج کرنے والے گرفتار  بھی ہو جائیں تو ان کا مستقبل خطرے میں نہیں پڑتا لیکن فلسطین کے لیے احتجاج کرنے والے یہ افراد عالمی طاقتوں سے ٹکر لے رہے ہیں۔

ابھی دو روز قبل مائیکروسافٹ کمپنی کی رکن ابتہال ابوسعد نے سر عام اپنی کمپنی کے مصنوعی ذہانت کے سربراہ مصطفیٰ سلیمان کی تقریر کو روکا اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔ 

یہ تقریب براہ راست دنیا کو دکھائی جا رہی تھی اور مائیکروسافٹ کی تو بین الاقوامی ساکھ ہے، یوں یہ احتجاج کروڑوں افراد تک پہنچا۔ 

ابتہال نے اپنے احتجاج میں حوالہ دیا کہ کیسے مائیکروسافٹ کی مصنوعی ذہانت کو اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کے قتل عام میں استعمال کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابہتال کی طرح انڈین نژاد امریکی سافٹ ویئر انجینیئر وانیا اگراوال بھی مائیکروسافٹ کی تاریخ کی یادگار تقریب کے دوران احتجاج کرکے ادارہ چھوڑ چکی ہے۔ 

وانیا نے مائیکروسافٹ اور اسرائیلی فوج کے درمیان حالیہ معاہدے کو فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے مترادف قرار دیا۔

ابتہال اور وانیا کے احتجاج پہ مائیکرسافٹ کا ردعمل جو بھی ہو، لیکن نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم لیڈر محمود خلیل احتجاج کے باعث جیل میں ہیں۔

امریکی گرین کارڈ ہونے کے باوجود انہیں امریکہ سے نکالے جانے کا امکان ہے۔ ان پہ الزام ہے کہ وہ کولمبیا یونیورسٹی میں غزہ کے حق میں احتجاج  منعقدکراتے تھے اور حماس کے حامی ہیں۔

محمود خلیل یوں بھی ناقابل قبول ہیں کیونکہ وہ امریکی یونیورسٹیوں کی اسرائیل نواز انتظامیہ کے خلاف کھل کر بول رہے تھے۔ 

ان کی طرح نیو جرسی کی طالبہ لیقا کُردیا بھی زیر حراست ہیں۔ لیقا کو غزہ کی حمایت میں احتجاج کرنے کی سزا دیگر مقدمات میں الجھا کر دی جارہی ہے۔

مائیکل ڈی گراف،ٹیفنی ولوبی، ڈیوڈ مِلر، ڈینی شو، مورا فنکل سٹائن،سمیت اور بھی سینکڑوں سکالرز، محقیقین، صحافی اور طالب علم ہیں جو اسرائیلی جارحیت کے خلاف بولنے کی سزا مختلف شکلوں میں پا چکے ہیں یا پا رہے ہیں۔ 

یہ بہادر لوگ اپنی اوقات نہیں اپنا نظریہ دیکھ کر اتنے پراعتماد ہیں۔ یہ افراد اپنی زندگی کی جمع پونجی داؤ پہ لگا چکے ہیں۔ انہیں ظالم کو ظالم کہنے کی جرات تھی سو اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔

ایک ایسا وقت جب مغرب میں بہت سے مسلمان مہاجرین امیگریشن قوانین اور دیگر وجوہات کے باعث چپ ہیں، جب پوری کی پوری مسلم امہ منہ میں دہی جمائے بیٹھی ہے، جب معاشی تعلقات کا بہانہ بنا کر مشرق وسطی کے بعض ممالک اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے سے بھی کترا رہے ہیں ایسے میں چند غیور افراد کے چھوٹے چھوٹے انفرادی احتجاج بڑی کمپنیوں کے پورے لاؤلشکر پہ بھاری ہیں، گہرے سناٹوں میں ایک للکار بھی بہت ہے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپیننڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ