غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے پرت کھلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جن سے یہ اب زیادہ صاف دکھنے لگا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ایک تباہ کن جنگ اسرائیل اور اس کی فوج نے لڑی ہے۔ لیکن اس کے اصل کرداروں کا تاریخ جب تعین کرے گی تو امریکہ و اتحادیوں کے نام نمایاں ہوں گے۔
ایسا اس حقیقت کے باوجود ہو گا کہ امریکہ جنگ نہ لڑ کر جیتنے اور لڑ کے ہار جانے کا ایک وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال افغانستان کی ہے۔ امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف جنگ پاکستان کے اداروں اور عسکری ویژن و مہارت سے جیتی۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ براہ راست شریک نہ تھا۔ بلکہ پاکستان اور اس کے اداروں اور افغان مجاہدین نے لڑی تھی۔ مگر جب سوویت یونین کو شکست کے بعد دریائے آمو کے پار واپس جانا پڑا تو امریکہ نے بڑی خوبصورتی سے اس جنگ کی فتح کا کریڈٹ اپنے نام کر لیا اور پاکستان کے حصے میں دہشت گردی ڈال دی۔
نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی جنگ تھی۔ مگر بیس سال پر پھیلی اس تباہ کن جنگ اور امریکی قیادت کے لیے بھی مہلک جنگ کے باوجود اگست 2021 کو جس طرح امریکہ کو انخلا کرنا پڑا وہ امریکی فتح قرار نہیں دیا گیا۔
لیکن جس طرح غزہ میں امریکی سرپرستی میں امریکی اسلحے کے ساتھ اسرائیل نے جنگی تباہ کاری کی بدترین مثال قائم کی اور بعد ازاں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ہونے پر از سر نو امریکی مشورے و تائید کے ساتھ دوبارہ جنگ مسلط کی ہے، اس سے بھی اس جنگ کی حتمی فتح یا شکست کا کریڈٹ امریکہ کو دیے بغیر مؤرخین آگے نہ بڑھ سکیں گے۔ یوں افغان جنگ کی ناکامی اگر جو بائیڈن نے اپنے اور ڈیموکریٹس کے کھاتے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا تو صدر ٹرمپ جو جنگیں ختم کروانے کے نعروں کے دوش پر دوبارہ وائٹ ہاؤس پہنچے ہیں۔ وہ بھی اس غزہ جنگ کی فتح یا شکست کا حتمی تمغہ سجائے بغیر وائٹ ہاؤس سے نہیں جائیں گے۔
امریکہ غزہ جنگ لڑنے کا براہ راست کریڈٹ اور ٹائٹل لے یا نہ لے وہ اس جنگ کی جیت کا تمغہ افغانستان کے بعد ضرور اپنے سینے پر سجانے کا خواہاں ہے۔ اس لیے اگر اسرائیل جیتا تو امریکہ اپنی جیت کے طور پر پیش کرنے کی خواہش ضرور رکھے گا تاکہ یورپ اور مشرق پر اپنی بالادستی اور غلبے کو ایک بار پھر راسخ ظاہر کر سکے۔
اب تک 530 دنوں پر پھیل چکی اس غزہ جنگ کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد ایک اور اہم پرت یہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ وہ غزہ سے فلسطینیوں کے ’مکمل‘ صفائے کا اعلان ہے۔ جس کا اظہار صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ پہنچ کر ابتدائی دنوں میں ہی کر دیا تھا۔ مصر اور اردن اور بعض دیگر مقامات پر فلسطینیوں کی غزہ سے لاکھوں کی تعداد میں منتقلی اس پرت کی ادھوری کہانی ہے۔
اس پرت کا دوسرا حصہ جو کہ اصلاً اس کا پہلا حصہ ہے وہ اس کے پیچھے موجود سوچ پر مبنی ہے۔ یہ سوچ صدر ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں 2017 میں سامنے آئی تھی۔ جب ایک تعمیراتی کمپنی نے اس ویژن کو Connected Gaza کے نام سے پیش کیا تھا۔ مسلسل اسرائیلی آتش و آہن کی زد میں رہنے والے اس غزہ کو جسے امریکہ کے زیر سرپرستی فیصلے اور اقدام کرنے والے اسرائیل نے ناکہ بندیوں سے مسلسل دنیا سے کاٹ رکھا ہے۔ اس کے لیے ایک تعمیراتی کمپنی Connected Gaza کے تصور کو سامنے لانا حیران کن تھا۔
حیران کن اس لیے کہ اگر یہ فطری سوچ اور درست سمت میں فیصلے کی بنیاد پر سامنے آتی تو اہل غزہ کو کم از کم مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم تک کو جوڑنے کا عمل سامنے آتا۔ اسرائیل کے اندر کھڑی کی گئی 708 کلومیٹر پر پھیلی کنکریٹ کی دیوار کو اسرائیل گرانے پر آمادہ نظر آتا۔ اسرائیل پس وپیش کرتا تو امریکہ کی طرف سے کوئی زبانی کلامی کوشش، کوئی سفارتی حرکت ہی نظر آتی۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ البتہ ایک نجی تعمیراتی کمپنی نے ایک تعمیراتی منصوبہ ضرور پیش کر دیا۔ ایسا منصوبہ جس میں آف شور بندرگاہ سے لے کر ایئرپورٹ اور سڑکوں کے ایک خوبصورت جال کے علاوہ فلک بوس خوبصورت عمارات کا نقشہ تھا۔ امارات کے برج خلیفہ اور سعودی عرب کے مکہ ٹاور کی طرح جسے امارات اور سعودی عرب اپنی شناخت اور ترقی و خوشحالی کی شان کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس ’تھیم‘ پر بعد ازاں مئی 2024 میں نتن یاہو کے دفتر سے بھی ایک خاکہ سرکاری تصدیق کے بغیر لیک کیا گیا۔ گویا غزہ کو بحر متوسط کے کنارے ٹرمپ کے ’غزہ ریوی ایرا‘ کے موجودہ تصور کی جڑیں کہیں اور بھی موجود ہیں۔
غزہ ریوی ایرا کا یہ پرت ایسا ہے کہ اس کے اثرات مشرق وسطیٰ کے خوشحال ملکوں پر پڑنے کا خدشہ لازمی ہے۔ یہ آج کے دبئی اور کل کے نیوم سٹی کی موجودگی میں امریکہ و اسرائیل کی معاشی، سیاحتی، سمندری اور عسکری آشاؤں اور منصوبوں میں رنگ بھرنے کا مؤجب بنے گا۔
فلسطینیوں سے ’پاک‘ اس ’غزہ ریوی ایرا‘ کو تصوراتی اعتبار سے دبئی جیسے پوٹینشیئل کا حامل سمجھنے کا ایک تازہ اظہار آٹھ مارچ 2025 کو بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے میں اسرائیل کی سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر اینات ولف نے کر دیا ہے کہ ’غزہ ریوی ایرا میں دبئی کا پوٹینشیل موجود ہے۔ ‘
یہ غزہ ریوی ایرا صرف ڈنولڈ ٹرمپ کے ریزارٹس کے دیرینہ ویژن اور دنیا بھر کے امرا کی تفریح گاہ کے لیے ایک ندی کنارا نہ ہو گا بلکہ اس میں ایک اندازے کے مطابق 1.7 ارب بیرل موجود تیل کا خزانہ اور وسیع پیمانے پر موجود شمسی توانائی کے وسائل کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ اہم بحری اڈہ بننے کی سارے امکانات موجود ہیں۔
یہ اہم تر تجارتی راستے سے بھی جڑا ہونے کے ناطے چین کے تجارتی عزائم کی راہ میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات اور اسرائیلی تحفظ کی ضمانت بھی۔ اس کی تکمیل کا ابتدائی خواب 2035 میں دیکھا گیا ہے۔ جبکہ نیوم سٹی 2030 میں اپنی تکمیل کی کافی منزلیں طے کر چکا ہو گا۔ یہ نیوم کا متبادل بننے کا پوٹینشل رکھتا ہے یا نہیں فی الحال اس پر ماہرین اور اسرائیلی و امریکی خاموش ہیں!
اب ایک اور پرت دیکھتے ہیں۔ اسرائیل کا جنگ بندی معاہدے کے بعد از سر نو جنگ شروع کرنے کا راستہ اسے کافی منافع بخش نظر آنے کی امید پیدا ہو رہی ہے۔ یہ امید اس کے باوجود لگ رہی ہے کہ کئی یورپی نمائندوں ہی نہیں خود اسرائیل کے اپنے عسکری ماہرین اور عوام کی بڑی تعداد بھی اسرائیل کے دوبارہ ایک تباہی پھیلانے والی جنگ میں کودنے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مگر اسرائیل کے لیے اطمینان و راحت انگیز بات یہ ہے کہ امریکہ ٹرمپ کی قیادت میں اسرائیل کے لیے ایک بڑے بلکہ سنہرے موقع کی طرح موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری خوش قسمتی اسرائیل کی یہ ہے کہ اس کے خلاف کہیں سے کوئی بڑی مزاحمت نہیں ہے۔ جو مزاحمتی آواز مسلم دنیا یا عرب ملکوں کی طرف سے اٹھتی ہیں وہ اٹھتے ہی ڈوب جانے اور صدا بصحرا ہونے کا خوب پوٹینشیئل رکھتی ہیں۔ یہ خوش قسمتی اسرائیل کی اس لیے بھی ہے کہ عرب و مسلم دنیا کی ساخت و حکمت اس کے بنیادی عناصر ترکیبی اور گھٹی میں شامل ہیں کہ یہ ریاستیں جن کی تعداد 50 سے زائد ہے، بہر صورت امن چاہتی ہیں۔
دوسرے سال میں داخل ہو چکی غزہ میں لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ و اسرائیل کے اس خواب کی تکمیل ہونے کا بڑا امکان ہے کہ غزہ کو فلسطینیوں سے ’پاک‘ ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کے مشترکہ ہدف میں فوری رنگ بھرنے میں اگر کچھ حکمت کے تقاضے آڑے بھی آ گئے تو وقت ضائع نہ کرنے کی حکمت عملی بروئے کار ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت نہ صرف یہ کہ ان سارے امدادی اداروں اور امداد و خوراک کی تقسیم کرنے والی تنظیموں کو ناکہ بندی سے روک دیا گیا ہے، جو بےگھر لاکھوں خواتین اور بچوں کو خوراک اور زندگی کی امید دے سکتے ہیں۔
اسرائیل شروع سے خواتین اور خصوصاً حاملہ خواتین کو ترجیحاً قتل کرنے کی حکمت عملی رکھتا ہے۔ اسرائیلی حکمت ساز اور فیصلہ ساز سمجھتے ہیں کہ اس طرح ایک گولی سے دو جانیں بیک وقت لی جا سکتی ہیں۔ ایک بننے والی ماں کی اور پیدا ہونے والے فلسطینی بچے کی۔ فلسطینی شیر خواروں کو دودھ کی فراہمی میں مدد دینے والی این جی اوز کو روکا جانا بھی اس سلسلے کی کڑی اور خیموں میں بسے بچوں اور ان کی ماؤں کو ہدف بنا کر بمباری کرنے کا بھی یہی مقصد ہے، اس میں بلا رکاوٹ کامیابی اسرائیل کے لیے خوش آئند ہے۔
سفارتی میدان میں بھی جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ کوئی بڑی رکاوٹ نہیں رہی ہے۔ ابراہم معاہدے کے سلسلے میں پیش رفت کی امید کل پھر سے توانا ہو رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کی اپنے اسرائیلی ہم منصب سے حالیہ ملاقات اسرائیل کے لیے حوصلہ افزا اور امریکہ کے لیے اطمینان بخش ہے۔ ایران کی عسکری سکت کم ہو گئی ہے۔ شام اور لبنان سے بھی خطرہ نہیں۔
پاکستان سفارتی میدان میں ایک پیروکار ملک کے طور پر کسی ایسی سمت میں جانے کا کوئی اشارہ نہیں دیتا جو اسرائیل کے لیے مشکلات بڑھانے والی ہوں۔ ترکیہ کے اپنے مسائل ہیں۔ ملائیشیا سے کوئی خطرہ نہیں۔ عراق کمزور ہے۔ گویا غزہ جنگ کے سب پرتوں میں اسرائیل کو امید اور امریکہ کو میدان آسان نظر آنا فطری ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپیننڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔