چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ میں اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ وقت کم مقابلہ سخت۔ کورکمانڈرکانفرنس میں ظاہر ہے اس پر بھی بات ہوئی تو ہوگی کہ کس طرح کے فیصلے کی توقع کی جاسکتی ہے اور صورت حال سے کس طرح نمٹنا ہوگا۔ نمٹنے سے یاد آیا کہ جب ضیا الحق نے رہبرتحریک ولی خان سے بھٹو صورت حال سے نمٹنے کا سوال کیا تواس نے جواب دیا:’ جنرل صاحب! تابوت ایک اور بندے دو ہیں، خود ہی آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کر لیں۔‘
صورت حال لگ بھگ اسی طرح سنگین ہے۔ فی الوقت تو یہی لگتا ہے کہ تابوت ایک اور بندے کئی ہیں۔ بندوں سے یاد آیا، وسیم اکرم کے تخت لہور میں بوٹے سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا: بوٹے، توں گلاں کیوں کڈھدا اے؟
وہ تو شروع ہی ہو گیا۔ بغیر کہیں رکے کہنے لگا: یار دیکھو، وکیلوں اور ڈاکٹروں کا حال ۔دونوں کے بیچ میں کھلے عام عوام مر رہے تھے۔ وزیراعظم کا بھانجا پیش پیش تھا، اور مدینہ کی ریاست دیکھ رہی تھی۔ عدلیہ کا جنازہ تو کب کانکل چکا ہے۔ رینجرز، پولیس کی حفاظت کے لیے آ چکی ہے اور رینجرز کو ہم نے آج تک صرف آتے دیکھا ہے،کراچی والوں سے ہی پوچھ لو کبھی جاتےدیکھا۔
فیر کہندے نیں بوٹا گالاں کڈھدا اے۔
اقتصاد دیکھ لو، قیامت کی مہنگائی اور یہ بھی کہ آئندہ دو سال مزید بڑھے گی۔ کارخانے رکنے لگے، لاکھوں لوگ بےروزگار ہو گئے۔ باہر والوں کو روزگار ملا بھی تو کونسا، عوام کو ہی لوٹنے کا۔ باہر بیٹھ کر تماشا کرنے والے خود تو آتے نہیں ہمیں کہتے ہیں تسلی رکھو ایک دو سال اور انتظار کرو۔اور اگر بھوکے ننگے ہوکر ایک اور یوٹرن ملا تو؟ بادشاہ کے پیچھے آواز نہیں، لوگ چلا چلا کر کہہ رہےہیں بادشاہ ننگا ہے،پھر بھی بادشاہ بضد ہے-قبرستان آباد ہورہے ہیں اور زندہ لوگ غائب ہو رہے ہیں۔
فیر کہندے نیں بوٹا گالاں کڈھدا اے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انتظامیہ کو دیکھو تجربے ہو رہے ہیں۔معاملات سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اسلام آباد ایک بڑا دفتر بن چکا ہے۔ جہاں فائل نہیں فال نکال کر دن بھر کی بورڈ کی ٹک ٹک کے بیچ میں پرنٹرسے تبادلوں اور تعیناتی کے پرنٹ آؤٹ جاری ہورہے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آرمی چیف کی توسیع کا ایک کاغذ ڈھنگ سے نہیں نکلا یا شاید استخارہ یافال کا روڑا اٹکا ہواہو۔ کہتے ہیں بابو لوگوں کے سر نہیں فقط چہرے بدلتے ہیں۔لیکن دیکھو تو اس وقت تو سب کے چہرے بھی وزیراعظم کے انتظامی سربراہ جیسے ہی لگتے ہیں۔ لگتا ہے ہجوم نے ایک ہی طرح کا ماسک پہنا ہے اور منجور، نا منجور کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔
فیر کہندے نیں بوٹا گالاں کڈھدا اے۔
میڈیا کا حال دیکھو پہلے سرکار کی پریس ریلیز ہوتی تھی،اب پریس کو پریس کرکے ریلیز کیا جاتا ہے۔ آغاز میں ہی کہہ دیا گیا کہ بزنس ماڈل بدلو۔سیٹھ کو کہا گیابندہ فارغ کرو تمہیں زیادہ پیسوں کی بچت اور ہمیں بدلے میں خاموشی،گویا دونوں کا فائدہ۔ مالکان کہتے ہیں کہ کاروبار تباہ ہے لیکن کروڑوں دے کر مزید چینلز کے لائسنس لیے گئے۔ حکمران کی گود میں بیٹھ بیٹھ کر گودی میڈیااب اپنے لیے بھی کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہا۔ سوشل میڈیا کی طاقت سے آنے والوں کو دن میں تارے دکھا ئے بھی تو کس نے، راؤ انوار کی طرح باہر سے ہی کارروائی ہوئی اور گالی الیون کے 20 ہزار سے زائد کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ شاید طاقتور کو یہ پتہ نہیں کہ وہ چین یا شمالی کوریا کے حکمران نہیں۔
فیر کہندے نیں بوٹا گالاں کڈھدا اے۔
پارلیمنٹ کا تو پوچھو ہی مت۔ چیخ چیخ کر بڑے بھائی کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ وہ توتوسیع کے لیے قانون سازی میں مخلص ہیں لیکن مدمخالف تعاون نہیں کر رہا۔سب کےسروں پر شکوک و شبہات کے گھنے جنگل اگے ہیں۔ دانشور، دانشخور بن گئے ہیں۔ سارے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کیا ہونے جارہا ہے؟ اور پھر وہی جواب ایک دوسرے کو دے کر شیخیاں بگھاری جارہی ہیں۔گھنٹوں فضول بحث ہو رہی ہے۔گھنٹوں بحث سے یاد آیا،ساڑھے سات گھنٹے یقیناً اس تمام بحث کے حل کے لیے ناکافی تھے۔ اس میں تو یہی کہا گیا ہوگا کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ اس نظام سے تو خیر کی توقع نہیں، لہذا ضرورت پڑی تو نظام ہی لپیٹا جائے۔ پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر سوچا گیا ہوگا کہ کون کون تیار ہے۔ تابوت۔۔۔۔ اب میرے منہ سے کچھ نکلا تو۔۔۔فیر کہندے نیں بوٹا گالاں کڈھدا اے۔۔۔