سندھ کے صحرائی ضلع عمرکوٹ کے نواحی گاؤں میں گذشتہ 20 سال سے ایک چشمہ انتہاہی تیز رفتاری کے ساتھ بہہ رہا ہے، جس کے متعلق مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مدد کرے تو اس پانی کو استعمال کر کے ریگستان میں زراعت کے شعبے میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
عمرکوٹ شہر سے کھوکھراپار کی طرف تقریباً 75 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صحرائی گاؤں سومو سموں میں غیر سرکاری تنظیم کی مدد سے 2005 میں ایک کنواں کھودا گیا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق اس کنویں کا پانی کھارا تھا اور کچھ دنوں بعد وہاں اچانک تیز رفتار چشمہ بہنے لگا۔
مقامی لوگوں نے اس قدرتی چشمے پر ایک بڑے سائز کا پائپ نصب کر رکھا ہے، جس سے مسلسل پانی بہہ رہا ہے۔
گاؤں سومو سموں کے رہائشی عبدالخالق سموں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’پانی کی رفتار سے ایسا لگتا ہے جیسے بجلی پر چلنے والی موٹر کی مدد سے ٹیوب ویل چل رہا ہو، مگر اس چشمے کا پانی قدرتی طور پر تیز رفتاری سے گذشتہ 20 سال سے مسلسل جاری ہے۔ ہم نے اس چشمے کے قریب کچھ حوض بنا دیے ہیں، جن میں چشمے کا پانی بھر دیا جاتا ہے، جو مقامی لوگوں کے مویشی پیتے ہیں۔‘
بقول عبدالخالق: ’اس پانی پر میں نے اپنی زمین میں گندم کی کاشت کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا اور اچھی فصل ہوئی، مگر اس پانی کو کھیتوں تک لے جانے کے لیے پائپ لائن درکار ہے جو انتہائی مہنگی ہے اور مقامی لوگ پائپ لائن لگانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اگر حکومت مقامی لوگوں کی مدد کرے اور اس پانی کو کھیتوں تک لے جانے کے لیے پائپ لائن بچھانے میں مدد کرے تو ریگستان میں زرعی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔‘
سندھ کا صحرا زرخیز صحرا سمجھا جاتا ہے، جہاں بارش کے بعد ہر طرف ہریالی چھا جاتی ہے اور مقامی لوگ بارش کے پانی سے باجرا، گوار، مونگ سمیت مختلف دالیں اور دیگر فصلیں کاشت کرتے ہیں۔
بقول عبدالخالق سموں: ’یہ عام تصور ہے کہ یہ ریگستانی علاقہ ہے اور یہاں پر فصلیں کاشت نہیں کی جا سکتیں، مگر اس چشمے کے پانی کو استعمال کیا جائے تو کئی اقسام کی فصلیں کاشت کی جا سکتی ہیں اور اس کے علاوہ مویشیوں کے لیے گھاس بھی اگائی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایسا کرنے سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، کیونکہ اس ریگستان میں لوگوں کے لیے روزگار کے ذرائع انتہائی کم ہیں۔‘
ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ اس طرح تقریباً 20 سالوں سے مسلسل پریشر کے ساتھ پانی نکلنے کا سبب زیرِ زمین پانی کے چینلز (ایکویفر) میں ہائیڈرولک پریشر بننا ہو سکتا ہے۔
سندھ یونیورسٹی جامشورو کے شعبہ سینٹر فار پیور اینڈ اپلائیڈ جیولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد سومر سامٹیو کے مطابق کسی وجہ سے اس خطے میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر والے چینلز میں ہائیڈرولک پریشر پیدا ہونے کے بعد کنواں یا ٹیوب ویل لگانے سے پانی اتنی تیزی سے باہر نکل رہا ہے۔
محمد سومر سامٹیو نے عالمی ماہرینِ ارضیات بشمول جرمن ماہر رابرٹ براؤن اور آسٹریلوی ماہر ڈاکٹر برن کے ساتھ تھر کے زیرِ زمین پانی کے معیار، پانی کی موجودگی اور میٹھے پانی پر 2011 سے 2015 تک تفصیلی تحقیق کی، جو عالمی تحقیقی ادارے ریسرچ گیٹ میں بھی شائع ہوئی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد سومر سامٹیو نے بتایا: ’2005 میں آنے والے زلزلے نے اس خطے کو بھی شدید متاثر کیا۔ عالمی ماہرین کے ساتھ ہماری ٹیم نے اس خطے کے زیرِ زمین پانی پر تقریباً چار سال سے زائد عرصے تک تحقیق کی، جس کے دوران متعدد مقامی افراد نے مختلف علاقوں میں ہماری ٹیم کو بتایا کہ زلزلے سے قبل جن کنوؤں کا پانی میٹھا تھا، وہ زلزلے کے بعد کڑوا ہو گیا۔
’جس سے ہماری ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زلزلے نے زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو متاثر کیا ہے اور زلزلے کے باعث کچھ خطوں کے زیرِ زمین پانی کے چینلز (ایکویفر) میں ہائیڈرولک پریشر پیدا ہوا، جس کے باعث پانی اس طرح تیزی سے نکل رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’زمین کے نیچے موجود مٹی یا پتھر کی تہہ پانی کے پریشر کو کنٹرول کرتی ہے اور اگر یہ مضبوط ہوں تو پریشر میں تیزی کا سبب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ زمین میں آنے والے زلزلے اور ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکت سے بھی ایکویفر میں پریشر پیدا ہو سکتا ہے۔
’اس طرح مسلسل پانی نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین کے پانی کے ایکویفر کہیں سے ریچارج ہو رہے ہیں۔ یا تو بارش یا کسی ندی سے پانی ان جگہوں پر موجود ایکویفر کو ریچارج کر رہا ہے۔‘
محمد سومر سامٹیو کے مطابق نہ صرف ضلع عمرکوٹ کے گاؤں سومو سموں کے اس کنویں سے پانی پریشر سے نکل رہا ہے بلکہ عمرکوٹ کی تحصیل پتھورو میں ایک ٹیوب ویل لگایا گیا، وہاں بھی پانی پریشر کے ساتھ نکلنے لگا، جس سے آس پاس کی انسانی آبادی ڈوبنے کا خدشہ ہو گیا تھا، اس لیے اس ٹیوب ویل کو بند کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا: ’ہماری تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ دریائے ہاکڑو کے کئی چینلز اس پورے خطے میں پھیلے ہوئے ہیں اور 2005 کے زلزلے میں ممکنہ طور پر ان چینلز میں ہائیڈرولک پریشر پیدا ہوا، جس کے بعد کنواں کھودنے یا ٹیوب ویل لگانے پر پانی اس پریشر کے ساتھ نکلنے لگا، مگر اس پر ایک علیحدہ تحقیق کی ضرورت ہے، جس سے معلوم کیا جا سکے کہ پانی اتنے پریشر سے کیوں نکل رہا ہے؟‘